کرہ ارض ایک ویرانہ تھا۔ سنسان اور تاریک ویرانہ۔ پھر حکم خداوندی سے روشنی تخلیق ہوئی، اور تاریکی کا وجود اس سے الگ ہو گیا۔ اس طرح دن اور رات پیدا ہوئے۔ صبحوں اور شاموں کی حد بندی ہوئی اور ستارے اور سیارے اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔
اب زمین و آسمان بج چکے تھے۔ کائنات ترتیب پا چکی تھی۔ بیکراں افلاک پر کروڑ ہا نوری فرشتے خدائے ذوالجلال کی تسبیح وحمد میں مصروف تھے، لیکن اس وحدہ لاشریک کی قدرت کسی چیز کی کمی محسوس کر رہی تھی ۔ ابھی اس کا کھیل ادھورا تھا۔ ابھی اس کا شاہکار درجہ اتم کو نہیں پہنچا تھا۔ وہ زمین پر اپنا ایک نائب مقرر کرنا چاہتا تھا۔ جس میں لاچاری اور اختیار کا حسین امتزاج ہو اور جو اس کا ئنات کی افضل ترین مخلوق سمجھی جائے۔
:پھر ایک روز اس ذات باری تعالیٰ نے جبرائیل سے کہا
جا زمین پر اور ایک مشت خاک لے کر آ۔
پروردگار کے حکم پر جبرائیل علیہ السلام آسمانوں سے زمین پر اترے اور ایک مقام سے مٹی حاصل کرنا چاہی۔ یہ وہی مقام تھا جہاں اب خانہ کعبہ ہے۔ زمین خوف خدا سے لرز اٹھی۔ جبرائیل سے کہنے لگی۔ اے خدا کے مقرب فرشتے کیا کرتے ہو؟
جبرائیل علیہ السلام نے کہا۔ رب جلیل تیری خاک سے ایک وجود پیدا کرنا چاہتا ہے جو تجھ پراس کا نائب بن کر رہے گا۔ زمین پکاری: اے جبرائیل تجھے خدا ہی کا واسطہ ایسا نہ کر۔ اس وجود سے جنات کی طرح کوئی سرکش اور نا فرمان مخلوق پیدا ہوئی اور اس مخلوق پر خدا نے اپنے عذاب نازل کیے تو یہ عذاب بالواسطہ مجھ پر بھی نازل ہوں گے۔ میں سیلابوں کی زد میں آؤں گی۔ زلزلے مجھے پھاڑیں گے، اور قحط سالیاں مجھے اجاڑ دیں گی۔
حضرت جبرائیل کو زمین کی فریاد پر رحم آیا اور وہ خاک لیے بغیر واپس چلے گئے۔ انہوں نے جا کر خدائے ذوالجلال کے حضور صورتِ احوال بیان کی۔ خدا نے حضرت میکائیل علیہ السلام کو اسی غرض سے زمین پر بھیجا مگر وہ بھی زمین کی منتوں ساجتوں پر پہنچ گئے۔ پھر حضرت اسرافیل علیہ السلام حکم خداوندی پر آسمانوں سے زمین پر اترے۔
زمین نے ان کے سامنے بھی گریہ وزاری کی۔ حضرت اسرائیل علیہ السلام نے بھی خدا کے پاس واپس آکر اپنی معذوری ظاہر کر دی۔ اللہ رب العزت کی طرف سے حضرت عزرائیل علیہ کو زمین سے خاک کی مٹھی لانے کا حکم ہوا۔ عزرائیل علیہ السلام رفعت افلاک سے کرۂ خاک پر پہنچے اور زمین کی ہزار منتوں سماجنتوں اور گریہ وزاری کے باوجود حکم خداوندی کے بموجب مختلف مقامات سے ایک مٹھی خاک جمع کی اور عرش معلیٰ پر خدا کے حضور پیش کر دی۔
خدائے تعالیٰ نے کہا: اے عزرائیل! میں اس مٹی سے ایک خا کی پتلا بناؤں گا۔ پھر اس میں جان ڈالوں گا۔ پھر تجھی کو اس کی جان قبض کرنے پر معمور کروں گا۔
عزرائیل علیہ السلام نے عرض کی: اے رب العزت ملک الموت کی حیثیت سے مجھے قابل نفرت جانا جائے گا۔ تیرے بندے مجھے برا بھلا کہیں گے۔
خدا نے کہا۔ ایسا نہیں ہوگا عزرائیل میں انسانوں کے لیے موت کے اسباب پیدا کر دوں گا۔ کوئی پانی میں غرق ہو گا، کوئی آگ میں جلے گا کوئی بلندی سے گرے گا اور کسی کی موت کا سبب بیماری ہوگی۔ تجھے کوئی مورد الزام نہ ٹھہرائے گا۔
پھر خدا نے عزرائیل علیہ السلام کو قیامت تک کے لیے اجل کی ذمے داریاں سونپ دیں۔ دوسرے مقرب فرشتوں کو بھی ان کی طبع کے مطابق ذمے داریاں سونپی گئیں۔
خدا تعالیٰ نے عزرائیل علیہ السلام کی لائی ہوئی مٹی کو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام پر رکھا اور اپنی قدرت کاملہ سے اس پر باران رحمت کا نزول کیا۔ کچھ عرصہ یہ مٹی بھیگی ہوئی پڑی رہی۔ پھر خدا نے اس مٹی کے خمیر سے حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا۔ چالیس برس تک وہ پہلا بے جان و بے حرکت اسی مقام پر پڑا رہا۔ یہاں تک کہ وہ سوکھ گیا اور اس میں کھنکھناتے ہوئے برتن یا پختہ ٹھیکری کی آواز آنے لگی۔ اب خدائے ذوالجلال نے اس میں روح پھونکی۔ روح اس تنگ و تاریک پہلے میں جانے سے گھبرائی۔ خدا نے اسے تین بار حکم دیا۔ جہاں تک روح پہنچتی گئی ، جسدخاکی گوشت پوست میں تبدیل ہوتا گیا۔ آخر حضرت آدم علیہ السلام کو چھینک آئی اور بالہامِ الٰہی ان کی زبان سے الحمد للہ نکا۔ جوابا اللہ تعالی نے یرحمکم اللہ فرمایا جسم میں جان پڑتے ہی حضرت آدم علینا نے اٹھنے کی کوشش کی۔ جسے دیکھ کر خداوند تعالیٰ نے فرمایا: خلق الانسان من عجل (انسان جلد باز پیدا ہوا ہے)
جب خدائے تعالی حضرت آدم علیہ السلام کے جسد خاکی میں روح پھونک رہے تھے لاکھوں فرشتے قطار اندر قطار کھڑے دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ زندہ ہونے کے بعد آدم فرش خاک سے اٹھے تو خدا کے حکم پر انہیں بہشت میں لایا گیا۔ بہشت کے ایک خوبصورت حصے میں جہاں دودھ و شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں اور گھنے درختوں پر خوش الحان پرندے سماں باندھ رہے تھے۔ ایک درخشاں تخت بچھایا گیا، اور حضرت آدم علیہ السلام کے سر مبارک پر ایک زریں تاج رکھ کے انہیں تخت پر بٹھا دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ اپنی قوت کا ملہ سے جانتے تھے کہ آج ملائکہ کے ساتھ ایک اہم مکالمہ ہونے والا ہے۔ لہذا حضرت آدم علیہ السلام کو ہر آزمائش سے گزرنے کے لیے تیار کر لیا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اہم چیزوں کے نام سکھا دیے تھے، اور یہ نام حضرت آدم علیہ السلام کے قلب و ذہن پر نقش تھے۔
فرشتے ابتدائے پیدائش آدم علیہا سے آپس میں یہ کہتے آ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ جس خا کی پہلے میں جان ڈال کر اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہے، وہ اسے ہم سے زیادہ عزیز رکھے گا۔ آخر جس روز آدم علیہ السلام زندگی پاکر جنت میں جلوہ افروز ہوئے ملائکہ کے دل کا ملال ان کی زبان پر آ گیا۔ انہوں نے کہا۔ اے باری تعالیٰ! آپ ایسے شخص کو اس زمین پر آباد کر رہے ہیں جو فساد اور خون ریزیاں کرے گا۔ کرہ خاکی کا سکون اس کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو جائے گا حالانکہ تیری تسبیح وحمد کے لیے ہم ہمہ وقت موجود ہیں اور تیری عبادت میں دل و جان سے مصروف رہتے ہیں۔
اللہ تعالٰی نے قدرے ناراضگی سے فرمایا ۔ میں وہ مصلحتیں جانتا ہوں، جو تم نہیں جانتے۔
اس پر ملائکہ پشیمان ہوئے انہوں نے معافی مانگی اور خدا کے حضور توبہ کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کچھ اشیاء فرشتوں کے سامنے رکھیں اور ان سے کہا کہ ان اشیاء کے نام بتاؤ ۔ ہزاروں لاکھوں فرشتے مبہوت کھڑے رہ گئے۔ ان میں نہایت برگزیدہ فرشتے جبرائیل، میکائیل، اسرائیل اور عزرائیل بھی تھے۔ ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔
آخر انہوں نے نہایت عاجزی سے کہا۔ اے قادر مطلق! ہمیں ان اشیاء کے نام معلوم نہیں۔ ہمیں تو وہی کچھ معلوم ہے جو تو نے ہمیں سکھایا ہے بے شک تو بڑے علم اور حکمت والا ہے۔ فرشتوں نے متفقہ طور پر اپنی لاعلمی اور عاجزی کا اظہار کر دیا تو رب جلیل نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا:
اے آدم! اب تم ان چیزوں کے نام بتاؤ۔
آدم علیہ السلام نے حکم ملتے ہی تمام اشیاء کے نام فرشتوں کے سامنے بیان کر دیے۔ چونکہ آدم علیہ السلام کو زمین پر نائب بنائے جانے پر فرشتوں کو حیرانی ہوئی تھی اور انہوں نے خدا کی اس تخلیق پر اعتراضات کیے تھے۔ اس لیے خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کی بزرگی و فضلیت فرشتوں کو دکھا دی کہ یہ پتلا خا کی ہونے کے باوجود علم و مرتبے میں ان سے ارفع ہے۔ یہ تو آدم علیہ السلام کی بزرگی فضلیت کے اظہار کا پہلا طریقہ تھا مگر اللہ تبارک تعالیٰ نے ایک دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا۔ تمام فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ ملائکہ نے حکم کی تعمیل کی اور قطاروں کی قطاریں تخت زرین پر جلوہ افروز آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد فرشتوں کو خدا کی طرف سے سر اٹھانے کا حکم ہوا۔ انہوں نے سجدہ ختم کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ عزازیل (ابلیس) نے خدا کے حکم پر آدم کو سجدہ نہیں کیا۔ وہ نہایت ڈھٹائی سے گردن اکڑائے کھڑا تھا۔ اللہ تعالٰی کو عزازیل کی حرکت سخت نا پسند ہوئی اور اسے پہلی بار ابلیس کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
اے ابلیس کس چیز نے روک دیا تجھ کو کہ سجدہ کرے اس کو جسے میں نے بنایا اپنے ہاتھوں سے؟
ابلیس نے کہا: اے خدا! میں آگ سے بنا ہوا اور یہ سڑے ہوئے گارے سے وجود میں آیا ہے میں اس سے افضل ہوں اس لیے اسے سجدہ نہیں کروں گا۔
ملائکه دم بخود به گفتگوسن رہے تھے۔ ذات باری تعالیٰ کے جاہ وجلال اور غضب کا تصور ان کے اجسام پر کپکپی طاری کر رہا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ عزازیل نے خود کو ہلاکت میں ڈالا ہے اور اس کے بارے میں کوئی نہایت سخت فیصلہ ہونے والا ہے۔
ابلیس ملعون اپنے اندر کی آگ اگل کر خاموش کھڑا تھا۔ در حقیقت ابلیس فرشتہ نہیں جن تھا۔ اس کی تعمیر آگ سے ہوئی تھی اور آگ کی خاصیت جلانا اور راکھ کرنا ہے۔ ابلیس نے ہزاروں برس خدا کی عبادت کی تھی لیکن آج اس کی آگ نے خود اسی کی فضلیت کے پر جلا دیے تھے۔ اس کی بندگی کو راکھ کر دیا تھا۔ وہ دھتکارا ہوا اور پھٹکارا ہوا خدا کے سامنے کھڑا فیصلے کا منتظر تھا۔ آخر رب العزت کی صدائے جلیل افلاک میں گونجی۔
اے ابلیس جنت سے نکل جا تیری یہ ہستی نہیں کہ یہاں رہ کر سرکشی کرے یقینا تو ان میں سے ذلیل و خوار ہیں، تو مردود ہو گیا اور اب حشر تک میری پھٹکار میں مبتلا رہے گا۔
ابلیس کی ہٹ دھرمی عروج پر تھی۔ وہ سراپا شیطان بن چکا تھا۔ خدا کا غضب دیکھ کر بھی اس ملعون کی گردن خم نہیں ہوئی۔ وہ کسی پشیمانی کے بغیر ڈٹا کھڑا رہا۔ کہنے لگا۔
اے خدا! مجھے حشر کے روز تک کے لیے مہلت دے کہ میں تیری اس نئی مخلوق کو گمراہ کرنے کی کوشش کر سکوں۔ مجھے یہ اختیار بخش کہ میں نسل آدم کی نگاہوں میں آئے بغیر ان کے اذہان وقلوب کو متاثر کرسکوں۔ میری رسی دراز کردے تا کہ میں تیرے جہنم کے لیے ایندھن فراہم کرنے کے کام میں لگ جاؤں۔ اللہ تعالی نے فرمایا۔ ٹھیک ہے ابلیس ! تجھے وقت معلوم تک کے لیے ڈھیل دی گئی، تو اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لے۔
ارشاد باری تعالی سننے کے بعد ابلیس نے اپنی خباثت کا مزید اظہار کرتے ہوئے انسان کے متعلق کہا۔ اے خدا! میں روئے زمین پر تیرے ان بندوں کو گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ آگے پیچھے دائیں بائیں غرض ہر جانب اور ہر طریقے سے ان پر وار کروں گا ممکن ہے کہ کچھ لوگ میرے ان حملوں سے بچ رہیں، مگر اکثر نشانہ بنیں گے۔
خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ پس یہ ٹھیک ہے اور میں ٹھیک بات ہی کہا کرتا ہوں بنی آدم میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا وہ تیرا ساتھی ہوگا۔ میں ان کے اعمال کی پاداش میں دوزخ کو ان سے اور تجھ سے بھر دوں گا۔
حضرت آدم علیہ السلام اب جنت میں قیام فرما تھے۔ ہر نعمت اور آسائش انہیں میسر تھی۔ آرام ہی آرام۔ فراغت ہی فراغت لطف ہی لطف وہ باغات بہشت کی سیر کرتے دور دراز مقامات تک نکل جاتے، مظاہر قدرت دیکھتے اور حیران ہوتے، خوراک کی طلب ہوتی تو انواع و اقسام کے میوے خود بخود ان کے لبوں تک پانچ جاتے۔ پیاس محسوس ہوتی تو ٹھنڈے میٹھے دودھ کی نہروں کو وہ ہاتھ کی ایک جنبش کے فاصلے پر پاتے ، یہ سب کچھ تھا لیکن جات آدم میں کسی شے کی کمی تھی۔ کوئی خلا تھا جو ہر گھڑی محسوس ہوتا تھا۔ ایک تفنگی تھی جو شب و روز حرز جان رہتی تھی، آدم کوکسی کا انتظار تھا کسی ایسی ہستی کا جس کے بغیر وہ نامکمل تھے، کون ہے تو کون ہے تو وہ اکثر جنت کی ہواؤں سے پوچھتے مشک و عنبر کے ٹیلوں سے سوال کرتے، خوش الحان پرندوں سے استغفار کرتے ۔ کامل اور میکا صرف خدا کی ذات ہے صرف وہی ہے جو اپنی ذات میں مکمل ہے جسے کسی ساتھی کی ضرورت نہیں۔ یہ صدا انہیں فضاؤں میں گونجتی محسوس ہوتی۔
خدا اپنے بندے کی حاجت سمجھتا تھا۔ وہ جانتا تھا اسے اپنے ہم نسل کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے عدد کی ضرورت ہے جو اسے طاق سے جفت بنادے۔ خدا کی یہ منشاء بھی تھی کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کا ساتھی پیدا کرے۔ ایک روز جب حضرت آدم علیہ السلام کی اداسی اپنے عروج پر تھی۔ احساس تنہائی سے گھبرا کر جب وہ اپنے مستقر سے دور نکل گئے اور ایک ٹیلے پر بیٹھ کر خدا سے دعا کرنے لگے۔
اے خدا! میرے اندر یہ کیسی طلب ہے۔ یہ کسی خواہش کا غبار میرے بدن میں پھیلا رہتا ہے۔ تو حاجت رہا اور مشکل کشا ہے میرے تقاضوں کو سمجھتا ہے۔ اے خدا میری حاجت پوری کر۔ میری پریشانیوں کو دور فرما۔
آخر حضرت آدم علیہ السلام کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو بھیجا اور حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کی ایک بائیں پسلی نکال لو۔ آدم علیہ السلام پر نیند طاری ہوگئ۔ اسی نیند میں ان کی پسلی اس طرح نکالی گئ کہ انہیں بالکل تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے اس پہلی کے اندر سے حوا کو تخلیق کیا۔ اللہ تعالی نے انہیں ا میں پہلی نکال لو ۔ آدم علیہ السلام پر نیند طاری ہو گئی۔ اس نیند میں ان کی پہلی اس طرح نکالی گئی کہ انہیں بالکل تکلیف خوبصورتی خوب روئی اور نزاکت و لطافت بخشی، انہیں مہر و وفا، شرم اور شفقت کی صفات سے نوازا۔ کائنات میں تمنا بھی حسن ہے وہ حضرت حوا کے حسن کا دسواں حصہ ہے۔ نو حصے حسن خدا نے حضرت حوا کے پیکر میں ڈھال دیا تھا، پھر ھوا کو تاج زریں پہنانے کے بعد طلائی تخت پر بٹھایا گیا۔ اس کے بعد آدم کو گہری نیند سے جگا لیا گیا تا کہ وہ حوا کا جلوہ دیکھ سکیں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے بیدار ہو کر اپنے سامنے دیکھا تو تخت زریں پر ایک پیکر حسن جمال پایا۔ وہ وارنگی میں دیکھتے رہ گئے۔ پھر بے قرار ہو کر تیزی سے اس کی طرف بڑھے۔ تب بارگاہ الہی سے صدا آئی۔ اے آدم، خبر دار نکاح کے بغیر تو اس کے قریب مت جانا ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے درخواست کی کہ ان کا نکاح پڑھایا جائے۔ بارگاہ حق میں ان کی درخواست قبول ہوئی، ساتوں آسمانوں کے فرشتے جوق در جوق اس جگہ جمع ہونے لگے۔ پھر جنت فردوس میں اس پہلے نکاح کی تقریب بر پا ہوئی۔ درخت طوبی کے نیچے اس زریں تخت پر آدم و حوا قریب قریب بیٹھے تھے۔ حق تعالیٰ نے نکاح کا صیغہ پڑھا۔ حمد میری ثنا ہے اور بزرگی میری چادر کل مخلوقات میرے غلام اور لونڈیاں ہیں، انبیاء میرے رسول اور اولیاء میرے دوست ہیں۔ محمد ﷺ میرے حبیب اور رسول ہیں، تخلیق کیا میں نے ہر چیز کو تا کہ وہ گواہی دے میری وحدانیت پر، اے آدم! تم اور تمہاری عورت جنت میں رہو اور وہاں کی تمام نعمتوں سے بے خوف و خطر استفادہ کرو مگر ایک درخت کے پاس مت جانا دور نہ پھر تم نا انصاف ہو گے، اور میر اسلام تم پر ہو اور میری طرف سے صحت و برکت ہو۔
نکاح کے بعد حضرت آدم علیہ السلام نے خدا کی حمد وثنا کی ۔ آسمانوں پر آدم و حوا کے نکاح کا جشن منایا جانے لگا۔ چہار سو رنگ ونور کی بارش ہونے لگی۔ خوشبوؤں نے اپنے آنچل کھولے نظاروں نے خود کو نمایاں تر کیا اور کائنات کا ذرہ ذرہ تبسم ریز ہو گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جب حوا کے جسمانی قرب کا ارادہ کیا تو پردہ ہائے عرش سے صدا آئی ۔ اے آدم !ارک جاؤ جب تک تم مہر ادا نہ کر دو حوا تم پر حلال نہ ہوگی۔
حضرت آدم علیہ السلام نے کہا۔ اے خدا! میں مہر کہاں سے ادا کروں؟
باری تعالی نے جواب دیا۔ محمد ﷺ پر دس دفعہ درود پڑھو۔
یه اسم با برکت سن کر حضرت آدم علیہ السلام کو شوق دیدار ہوا۔ عرش معلی سے ندا آئی ۔ اے آدم! اپنے ناخن کی طرف دیکھ حضرت آدم علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی تو ناخن میں تشبیہ مبارک حضرت محمد ﷺعلم نظر آئی۔ جوش پدری میں حضرت آدم علیہا دیکھتے رہ گئے اور بے اختیار زبان سے درود جاری ہو گیا۔ حضرت آدم علیلا نے رسول پاک ﷺ کی رسالت کا اقرار کیا اور ان پر ایمان لائے۔
ان واقعات کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی نئی زندگی شروع ہوئی۔ وہ حضرت حوا کے ساتھ بہشت کی نعمتوں سے لطف اٹھانے لگے۔ جہاں چاہتے جاتے، جو پسند ہوتا کھاتے، جب چاہتے استراحت کرتے، خدائے بزرگ و برتر کی حمد وثنا اور اس کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کے سوا انہیں کوئی کام نہیں تھا۔ خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ ابلیس ملعون جس نے تجھے سجدہ نہیں کیا تھا، مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ بات حضرت آدم علیہ السلام کے ذہن پرش ہو چکی تھی اور وہ ابلیس کی طرف سے خبردار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس درخت کے قریب نہ جانے کا پختہ فیصلہ کر رکھا تھا جس سے حق تعالیٰ نے انہیں منع فرمایا تھا۔ یہ ایک نہایت خوش نمادرخت تھا۔ اس کا پھل دیکھ کر اکثر آدم و حوا کے دل میں تجس جا گتا تھا مگرحکم خداوندی کے ہمو جب وہ اس کے قریب نہ جاتے تھے۔ ایک عرصہ اسی طرح گزر گیا۔ معمولات روز و شب میں آدم و حوا شیطان لعین کی طرف سے لا پرواہ ہو گئے تھے مگر وہ ان کی طرف سے لا پرواہ نہیں ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح جنت میں داخل ہو کر آدم و حوا کو گمراہ کرے۔ ایک عرصہ وہ ان تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں میں لگا رہا۔ بالآخر اسے کامیابی ہوئی۔ اس نے جنت تک رسائی حاصل کرلی، مگر جنت کے تمام دروازے بند دیکھ کر اس کی امیدوں پر اوس پڑگئی۔ اس دوران اس کی ملاقات ایک طاؤس سے ہوئی۔ وہ طاؤس سے کہنے لگا کسی طرح مجھے جنت کے اندر لے جاؤ۔ طاؤس نے انکار کیا مگر ایک سانپ شیطان کے بہکاوے میں آ گیا اور شیطان کو اپنے منہ میں بٹھا کر بہشت کے اندر لے گیا۔
حضرت حوا تنہا ایک گوشہ بہشت میں بیٹھی تھیں، جب اچانک انہیں ایک جانب شور و غل کی آواز میں سنائی دیں۔ انہوں نے دیکھا کہ بہت سے حور و غلمان ایک جگہ جمع ہیں۔ تجس سے مجبور ہو کر وہ بھی اس مقام پر پانچ گئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص (جو دراصل شیطان تھا) بڑی دردمندی سے رو رہا ہے۔ وہ اس پیڑ کے قریب کھڑا تھا جس کا پھل کھانے سے خدا نے آدم و حوا کو منع کر رکھا تھا۔ حوا نے شیطان سے پوچھا کہ تو کیوں روتا ہے؟ وہ کہنے لگا۔
اے حوا مجھے اس بات پر رونا آ رہا ہے کہ عنقریب تم اور آدم مرجاؤ گے۔
حوانے بے قرار ہو کر پوچھا۔ اے دانا شخص! اس انجام سے بچنے کا کوئی راستہ؟
شیطان نے کہا۔ اے حوا! اگر تم اس درخت کے پھل کھا لوتمہیں کبھی موت نہ آئے گی ۔ تم دونوں ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح جنت میں نعمتوں کے مزے لوٹو گے۔ خدا تعالٰی نے اس پیر کا پھل کھانے سے تمہیں اس لیے منع کیا ہے کہ کہیں تم حیات ابدی نہ پا جاؤ۔
حوا پر شیطان کے اس واویلے کا اثر ہوا۔ انہوں نے درخت سے تین پھل توڑے اور سارا ماجرا جا کر حضرت آدم علیہ السلام کے گوش گزار کیا۔ کہنے لگیں۔ ایک پھل میں کھا لیتی ہوں اور دو تم کھا لو تا کہ موت ہم دونوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے اور ہم جدائی کے اندیشوں سے آزاد ہو کر ابدی راحت کی زندگی گزار سکیں۔
حضرت آدم علیہ السلام بھی شیطان کے اس بالواسطہ بہکاوے میں آگئے اور انہوں نے
شجر ممنوعہ کے پھل حوا کے ساتھ مل کر تناول کیے۔ پھلوں کا کھانا تھا کہ ان کے سروں پر موجود فضلیت وافتخار کے زریں تاج اڑ گئے اور ان کے جسم کے پوشیدہ حصے سب پر ظاہر ہو گئے۔ حواس باختگی کے عالم میں وہ درختوں کے پتے توڑ توڑ کر اپنے ستر چھپانے کی کوشش کرنے لگے۔ برہنگی کے احساس نے انہیں شرم سے پانی پانی کر دیا تھا۔ وہ درختوں میں بھاگ رہے تھے اور ایک دوسرے سے چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ کیفیت اس ندامت اور پشیمانی کا اظہا تھی جو حکم الہی سے روگردانی کے بعد آدم و حوا پر طاری ہوئی۔
وہی بہشت تھی، وہی اس کے سبزہ زار اور وہی حسین نشیب وفراز تھے مگر آدم و حوا کے لیے سب کچھ بدل چکا تھا۔ وہ کسی سے آنکھ ملانے کے قابل نہ رہے تھے اب وہ خدا کے محبوب نہیں، اس کی درگاہ کے معتوب تھے، اور یہ بات اہل بہشت بھی جانتے تھے۔ ان کی نگاہوں میں آدم و حوا کے لیے تاسف تھا مگر وہ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ وہ سب جانتے تھے کہ یہ دونوں اب خدائی عتاب سے بیچ نہ پائیں گے۔ آدم کو سجدہ نہ کر کے ابلیس نے جو کہانی شروع کی تھی وہ ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی تھی۔
عرش معلٰی سے کئی بار خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہم کو پکارا مگر شرمندگی کے سبب حضرت آدم علیہ السلام سے جواب نہ بن پڑا۔ آخر جبرائیل ان پر ظاہر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اے آدم! آپ کا رب آپ کو پکارتا ہے۔ تب حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے مالک کی صدا کا جواب دیا۔ اے رب العزت! ہم تیرے عاصی، تجھ سے شرمندہ ہیں۔ باری تعالیٰ نے فرمایا۔ اے آدم! میں نے تجھے اس پیڑ کے قریب جانے سے منع نہ کیا تھا؟ میں نے کہا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، وہ تمہیں راہ سے بھٹکانے کی کوشش کرے گا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے کہا: بیشک، اے رب! تو نے کہا تھا، تو نے ہمیں آگاہ کر دیا تھا۔ بے شک ہم خود اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ اے رب رحیم ! اگر تو نے ہمارا یہ قصور معاف نہ کیا تو ہمارا کہیں ٹھکانہ نہیں۔
بارگاہ ایزدی سے آدم و حوا کے لیے حکم ہوا۔ تم دونوں اب یہاں سے نکل چلو۔ کرہ ارض پر ایک دوسری طرح کی زندگی تمہاری منتظر ہے۔ تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانہ ہے اور وہیں رہ کر ایک مخصوص عرصے تک تمہیں نفع حاصل کرنا ہے تمہیں اب اسی کرہ ارض پر زندہ رہنا ہے وہیں مرتا ہے اور دوبارہ اٹھائے جانا ہے۔
آدم و حوا کے چہروں پر یاسیت نے ڈیرے ڈال لیے۔ وہ جنت کے حسین نظاروں کو بصد حسرت تلنے گے، ان ہی ندی نالوں میں، ان ہی باغات اور سبزہ زاروں میں انہوں نے اپنی حیات کا حسین عرصہ بسر کیا تھا۔ ان فضاؤں میں ان کی باہمی محبت کی یادیں بسی ہوئی تھیں اور ان ہی ہواؤں میں ان کی حمد و ثنا گونج رہی تھی، یہ جنت ان کی ناقابل فراموش یادوں کی جنت تھی اور اب وہ اس جنت سے بچھڑ رہے تھے۔ حکم ربی کے مطابق جبرائیل علیہ السلام نے آدم و حوا کو افلاک سے زمین پر پہنچا دیا۔ ان دونوں کے علاوہ طاؤس، سانپ اور شیطان کو زمین پر پھینک دیا گیا۔
بہشت سے جدائی اور اپنے مالک و خالق کی ناراضگی کا غم آدم و حوا کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ رہا تھا۔ وہ گریہ زاری کر رہے تھے اور آسمان کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر خدا سے معافی اور رحم کے خواستگار تھے مگر مشیت ایزدی کو یہی منظور تھا کہ آدم وحواز مین پر پہنچیں، وہاں بسیرا کریں اور ان سے ایک نئی دنیا کی تخلیق ہو۔ ان دونوں کو زمین پر بھیجنے میں اس علیم و حکیم کی ہزاروں حکمتیں اور دانائیاں پوشیدہ تھیں ۔ لہذا آدم و حوا کی دعاؤں کو فوری قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ وہ اپنے گناہ پر شرم سار و دلفگار ایک مدت زمین پر مارے مارے پھرتے رہے اور اپنے لیے بخشش طلب کرتے رہے۔ روایات کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو جزیرہ لنکا کے ایک مقام کوہ سراندیپ پر اتارا گیا تھا۔ حوا کو ان سے کوسوں دور جدہ میں اتارا گیا تھا۔ باقی تینوں میں سے ابلیس کو سیستان میں، سانپ کو اصفہان میں اور طاؤس کو کابل میں اتارا گیا۔ حاصل کلام یہ کہ آدم اور حوا ایک دوسرے سے دور سنسان اور بے آباد زمین پر بے آسرا گھوم رہے تھے، پہلے زخم ہی کچھ کم نہ تھے اب انہیں ایک دوسرے کی جدائی بھی برداشت کرنا پڑ رہی تھی۔
ایک زمانہ گزر گیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام روز و شب گریہ کرتے رہے اور یہی دعا مانگتے رہے اے رب! تو نے مجھے اپنی قربت سے محروم کر دیا، مجھے فرشتوں کی تسبیح و تہلیل سے تہی کر دیا، مجھے بخش دے۔
آخر خدا کو اپنے بندے کی حالت پر رحم آیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو تو بہ کا طریقہ القاء فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اس طریقے سے تو بہ کی اور اسے بارگاہ الہی میں قبولیت حاصل ہوئی۔ حضرت آدم علیہ السلام کی مایوسی اور غریب الوطنی دور کرنے کے لیے اللہ نے اپنی قدرت سے یاقوت سرخ کا ایک خوبصورت گھر ظہور پذیر کیا۔ اس کا نام بیت المعمور یا بیت الصراح تھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں اب خانہ کعبہ ہے۔ اس گھر کی ایک دیوار میں حجر اسود بھی پیوستہ تھا۔ اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین پر آئے اور حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی توبہ قبول ہونے کی خوشخبری سنائی۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کو خدا کا حکم پہنچاتے ہوئے کہا کہ وہ مکہ پہنچ کر اس گھر کا طواف کریں۔ اسی طرح جیسے ملائکہ عرش کا طواف کرتے ہیں۔ اس طواف سے ان کے دل کو سکون و راحت نصیب ہو گی۔ بعد ازاں جبرائیل نے آدم علیہ کو مناسک حج کے متعلق فرمایا اور آدم علیہ السلام حج کی ادائیگی کے لیے عازم مکہ مکرمہ ہوئے۔
یہ تنہائی اور حیرت کا سفر تھا۔ وہ زمین کی وسعتوں اور اس کی نیرنگیوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے اور چلے جارہے تھے۔ بعض روایات کے مطابق ان کا قد بہت لمبا تھا اور جس جس جگہ ان کے پاؤں پڑتے گئے وہاں زندگی کے آثار نمودار ہوئے۔ زمین زرخیز ہوئی اور سبزہ پیدا ہو گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام اپنے وجود کی کرامات سے بے خبر مکہ کی طرف رواں رہے۔ ان کی خواہش تھی کہ جلد سے جلد حکم ربی کی تعمیل ہو اور وہ اس گھر کا طواف کریں۔ آخر وہ اپنی منزل پر پہنچے۔ بیت المعمور ان کے سامنے تھا۔ انہوں نے خدا کی محبت اور اطاعت میں ڈوب کر مناسک حج ادا کیا۔
خدائی فرمان کے مطابق ان کی بے سکونی کو کسی درجہ قرار آیا۔ حج کے بعد وہ مکہ کی اطراف و جوانب کی سیر کو نکل گئے۔
وہ ایک چکیلی صبح تھی۔ ملکہ کے ویران پہاڑوں پر ایک سنسان دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ چہار سو ایک سکوت کامل طاری تھا۔ جب سے دنیا قائم ہوئی تھی اس سکوت کو کسی آہٹ نے مجروح نہ کیا تھا۔ ان پہاڑوں پر بھی کسی ذی روح کے قدم نہیں پڑے تھے لیکن آج یہ ویرانہ انسانی آوازوں سے آباد ہونے والا تھا۔ یہاں کے نشیب د فراز انسانی چاپ سے بہرہ ور ہونے والے تھے۔ کوئی کسی سے ملنے والا تھا۔ بنجر زمین پر ملاپ کا پہلا پھول اگنے والا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام استے قدموں سے چلتے چلتے نواحی پہاڑوں میں گھومنے لگے۔ ان کے تصور میں حوا کا ہیولا تھا۔ اس ہیولے کے ساتھ آبشاروں کے ترنم شبنم کی ٹھنڈک اور پھولوں کی نرمی کو نجانے کیا نسبت تھی کہ یہ سب چیزیں بھی آدم کے تصور میں چلی آئی تھیں۔ وہ سوچ رہے تھے میرا معبود تو مجھ سے راضی ہو گیا لیکن میری دنیا مجھے واپس نہ ملی۔ حوا نجانے کہاں اور کس حال میں ہے۔ وہ خدا سے کوئی سوال بھی نہ کرنا چاہتے تھے کہ مبادا اس میں مالک کی ناراضگی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کی آزمائش کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہیں ان کے انتظار کی شاخوں پر وصل کے پھول کھلنے والے تھے ۔ حضرت حوا بھی آدم علیہ السلام کی جدائی میں پریشان و دل گرفتہ تھیں۔ خدا کی ناراضگی کا احساس اور اپنے جیون ساتھی کی یاد نہیں ہمہ وقت رلاتی تھی۔ آدم علیہ تو اس سے پہلے بھی حوا کی تخلیق سے قبل تنہائی و اداسی کے عذاب سے دوچار ہو چکے تھے مگر حضرت حوا کے لیے یہ پہلا موقع تھا۔ ایک روز وہ بھی دل بہلاوے کے لیے جدہ کے مقام سے مکہ کی طرف روانہ ہوئیں۔ ان کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ ایک جگہ انہیں پتھر پر حضرت آدم علیہ السلام اپنی سوچوں میں گم بیٹھے نظر آئیں گے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھ کر وہ لکھیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے بھی انہیں دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں میں اجنبیت تھی۔ وہ ایک دوسرے کو ٹھیک سے پہچان نہیں سکے۔ ماہ و سال کی گردش نے ان کے خدو خال پر صعوبتوں اور کڑی آزمائشوں کی گرد چڑھا دی تھی۔ جسمانی تغیرات اور بعد زمانہ کے سبب وہ پہلی نظر میں ایک دوسرے کو اجنبی لگے۔ پھر حضرت جبرائیل علیلا نے آسمان سے اتر کر ان کا ایک دوسرے سے تعارف کرایا۔
اے آدم علیہ السلام! یہ تمہاری منکوحہ ہیں اور اے حوا! یہ آدم ہیں جن کے ساتھ خدا نے تمہارا جوڑا بنایا تھا۔
آدم اور حوا کی آنکھوں میں آنسو بہہ نکلے۔ برسوں کی تمنا ایک لمحے میں سمٹ آئی اور آدم نے بے قرار ہو کر حوا کو اپنے بہت قریب کر لیا۔ دونوں بڑی دردمندی سے رونے لگے۔
اس وقت دونوں کو حکم ہوا کہ سراندیپ چلے جاؤ تا کہ وہاں تمہاری اولاد پھلے پھولے اور یہ کرہ ارض آباد ہوں۔ حکم ربی کے مطابق آدم و حوا سراندیپ پہنچ گئے۔ ایک روز جبرائیل علیہ السلام ان کے پاس لوہے کے سات ٹکڑے لے کر آئے تا کہ انہیں آہن گری سکھائیں۔ آگ کی ضرورت پڑی تو جہنم سے آگ لائی گئی لیکن وہ اس قدر گرم تھی کہ استعمال نہ کی جاسکی۔ بالآخر چقماق پتھر رگڑ کر اس سے آگ پیدا کی گئی۔ جبرائیل علیہ السلام نے آدم علیہ السلام کو آہن گری سکھائی اور آلات زراعت بنا کر دیے۔ بہشت سے نکلتے وقت حضرت آدم علیہ السلام کے پاس چند پودے اور کچھ گندم موجود تھی۔ زراعت کے اسباب مہیا ہو گئے تو ایک روز آدم علیہا اور حوا زمین کے سینے سے رزق حاصل کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک قطعہ اراضی پر ہل چلا کر بیج بویا گیا۔ آدم نے گندم اور حوا نے جو ہوئے۔ پھر وہ شب و روز اس کھیتی کی دیکھ بھال میں لگ گئے۔ ان کی زندگی ایک خاص ڈگر پر چل نکلی۔
ایک روز جب وہ دونوں اپنے کھیت کی منڈھیر پر بیٹھے آسمان پر بادلوں کا راستہ دیکھ رہے تھے اچانک حضرت آدم علیہ السلام کی نگاہ ایک بھیٹر پر پڑی۔ وہ بھیڑ کے پیچھے بھاگے اور بالآخر اسے پکڑ لیا۔ اسی بھیٹر کی اون سے حضرت حوا نے اونی دھاگا کاتا اور زمین پر پہلا لباس تیار ہوا۔ اس دوران آسمانوں سے آدم وحوا کے لیے میوے آتے رہے۔ ابھی ان کی کھیتی تیار نہیں ہوئی تھی لہذا ضروری تھا کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ان کی غذائی ضروریات پوری کی جاتیں۔ دست غیب نے اس زمانے میں وقتا فوقتا ان کے لیے انواع و اقسام کے میوؤں کا انتظام کیا۔ ان میں چھلکے والے بغیر چھلکے کے گٹھلی والے اور بغیر گٹھلی کے ہر طرح کے میوے شامل تھے۔