حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقتوں میں مصر میں ایک کروڑپتی رہتا تھا۔ اس کا نام قارون تھا۔ وہ بڑے قیمتی خزانوں، زر و جواہرات کے انباروں اور سونے چاندی کے ذخیروں کا مالک تھا۔ اس کے بیش بہا خزانوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ ان کے صندوق کے تالوں کی چابیوں کے اونچے اونچے ڈھیر لگ جایا کرتے تھے۔
قارون بنی اسرائیل میں سے تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قریبی رشتہ دار بھی۔ مگر سیرت و کردار میں وہ بالکل مختلف تھا۔ اس نے مغرور فرعون سے دوستی گانٹھ رکھی تھی۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت اور ان کے وعظ و تبلیغ کے کام میں گڑ بڑ پیدا کرنے میں خاص لطف محسوس کیا کرتا تھا۔ کروڑ پتی ہونے کے باوجود وہ بے حد بخیل بھی تھا۔ کسی غریب آدمی نے اس کی دولت سے کبھی کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ اٹھایا تھا۔ جب بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام وعظ و تبلیغ کا سلسلہ شروع کرتے تو قارون اپنے خزانوں کے انبار اونٹوں اور گدھوں پر لاد کر لے آتا اور ان کی نمائش شروع کر دیتا۔ اس سے کئی سیدھے سادھے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تبلیغی اجتماع میں فل پڑ جاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسے بہتر نبھاتے کہ یہ سب دولت اسے اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے، اس لئے اسے چاہئے کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے ۔ مگر بد دماغ قارون ان نیک باتوں سے ٹس سے مس نہ ہو تا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی روز روز کی نصیحتوں سے تنگ آکر ایک دن قارون نے آپ کو نیچا دکھانے کا ایک ناپاک منصوبہ بنایا۔ اس شہر میں ایک بدنام آوارہ عورت رہتی تھی۔ قارون نے اسے بہت مال و دولت دے کر اس گندی بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بد اخلاقی کا جھوٹا الزام لگائے۔ چنانچہ اس بد چلن عورت نے ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھرے بازار میں گندا الزام لگا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شہر میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کئی سادہ لوح لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اخلاق پر سچ سچ شک و شبہ کرنے لگے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اس الزام تراشی کی اطلاع ملی تو آپ کو سخت غصہ آیا۔ آپ نے فوراً اعلان کر دیا کہ وہ خبیث عورت اپنے بہتان کے بارے میں حلفیہ بیان دے اور ٹھوس ثبوت فراہم کرے۔ ورنہ سچ سچ بتا دے کہ اس بلیک میل اور کردار کشی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ اس اعلان سے وہ آوارہ عورت بوکھلا اٹھی۔ جب رائے عامہ کے دباؤ اور ضمیر کی آواز نے اسے بہت ستایا تو ایک دن اس نے کھلے بندوں اعلان کر دیا کہ اس کا الزام بالکل بے بنیاد ہے اور اس نے یہ گندا ڈرامہ محض قارون کے اکسانے پر رچایا تھا۔
کروڑ پتی قارون کی بھونڈی سازش کا راز فاش ہو چکا تھا۔ مگر وہ اپنے ناپاک عزائم سے بالکل باز نہ آیا۔ بلکہ آپ کی مخالفت پہلے سے زیادہ زور و شور سے شروع کر دی۔ جب قارون کی بدی حد سے بڑھنے لگی تو ایک روز تنگ آکر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ لوگوں کو ذلیل قارون اور اس کی بے تحاشا دولت کے برے اثرات سے نجات دلائی جائے۔ آپ کی دعا قبول ہوئی۔ چنانچہ ایک دن اچانک مکلر قارون ، اس کے تمام خزانے اور سارے نوکر چاکر بڑی تیزی سے زمین میں دھنسنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بد قماش کروڑ پتی اور اس کا سب کچھ صفحہ ہستی سے ہمیشہ کیلئے مٹ گئے۔