حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً دو ہزار سال پہلے کی بات ہے کہ شام کے شمال میں ایک چھوٹا سا شہر آبا تھا، جس کا نام کنعان تھا۔ اس شہر میں اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام رہا کرتے تھے۔ آپ کو خدا نے بہت اولاد عطا کی تھی۔ ان کا ایک لڑکا یوسف علیہ السلام بے حد خوبصورت اور نیک سیرت تھا۔ یوسف علیہ السلام کا چھوٹا بھائی بن یامین بھی بہت اچھا بچہ تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام بچوں سے بہت شفقت سے پیش آتے ۔ مگر یوسف کی غیر معمولی صورت و سیرت کی وجہ سے انہیں اس سے کچھ زیادہ ہی انس تھا۔ یوسف علیہ السلام کے لئے باپ کے حد درجہ پیار نے اس کے سوتیلے بھائیوں میں حسد کی آگ سلگا دی تھی۔ انہوں نے یوسف علیہ السلام کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ تیار کر لیا۔ چنانچہ ایک دن وہ سیر و تفریح کے بہانے یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ جنگل میں لے گئے اور اسے ایک ویرانے کنوئیں میں دھکیل دیا۔ اپنا گندا کام مکمل کرنے کے بعد وہ جھوٹ موٹ روتے چلاتے گھر لوٹ آئے اور والد سے کہنے لگے کہ یوسف علیہ السلام کو بھیڑیے نے پھاڑ کھایا ہے۔
مکار بھائیوں کے اس فرضی ڈرامے سے حضرت یعقوب علیہ السلام کو دلی صدمہ ہوا ۔ مگر انہوں نے صبر و تحمل کر کے معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔ ادھر اسی روز مصر جاتے ہوئے ایک تجارتی قافلہ اسی کنویں کے قریب سے گزرا۔ قافلے والوں نے پانی کے لئے کنوئیں میں ڈول لٹکایا تو یوسف علیہ السلام اس میں بیٹھ کر باہر آگئے۔ قافلہ والوں کو حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ مصر پہنچ کر انہوں نے یوسف علیہ السلام کو ایک بڑے فوجی سردار فاطی فار کے ہاتھ بطور غلام فروخت کر دیا۔
فاطمی فار نے یوسف علیہ السلام کو اپنی ذاتی حویلی کے انتظامی امور چلانے کا کام سونپ دیا۔ دن گزرتے گئے۔ معاملہ ٹھیک ٹھاک تھا مگر ہوا یہ کہ سردار فاطی فار کی خوبصورت بیوی زلیخا یوسف پر فریفتہ ہو گئی۔ حضرت یوسف علیہ السلام چونکہ بچپن ہی سے بلند اخلاق واقع ہوئے تھے اس لئے وہ زلیخا کی حرکتوں کو بالکل نظر انداز کرتے رہے۔ جب زلیخا آپ سے بالکل مایوس ہو گئی تو اس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جھوٹا الزام لگا کر آپ کو جیل بھیجوا دیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام قید کاٹنے لگے ۔ مگر جیل کی انتظامیہ آپ کی شخصیت، وجاہت، عادات و اطوار اور بلند اخلاق و کردار سے بہت متاثر ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد آپ کو نظم و نسق کے امور کا نگران بنا دیا گیا۔ قید کے دن بیتے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے بوڑھے باپ کی یاد بہت ستاتی۔ کبھی چھوٹے بھائی کی تصویر سامنے آ جاتی۔ کبھی اپنے سوتیلے بھائیوں کی بد سلوکی پر غصہ آتا۔ کبھی اپنی بلاوجہ قید پر جی کڑہتا۔ مگر آپ یہ سب کچھ صبر و تحمل سے جھیلتے رہے۔ آپ اپنا سارا وقت خدا کی عبادت، فرائض کی ادائیگی اور قیدیوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں گزارتے رہے۔
آپ کو خوابوں کی تعبیر میں بہت ملکہ حاصل تھا اور آپ کی اس غیر معمولی صلاحیت کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی۔ اتفاق سے انہی دنوں مصر کے بادشاہ نے خواب دیکھا کہ سات موٹی گائیں سات دہلی گاؤوں کو نگل رہی ہیں۔ اور اناج کے سات ہرے بھرے خوشے سوکھے سڑے خوشوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بادشاہ اس عجیب و غریب خواب سے سخت حیران و پریشان ہوا۔ مگر شاہی محل میں کوئی بھی اس کی تعبیر نہ کر سکا۔ خوابوں کی تعبیر کے معاملے میں حضرت یوسف علیہ السلام کی شہرت جب بادشاہ تک پہنچی تو اس نے آپ کو فوراً بلا بھیجا۔ اور آپ سے اپنے عجیب و غریب خواب کی تعبیر پوچھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کو بتایا کہ اس کے خواب کا مطلب یہ ہے کہ مصر میں پہلے سات سال خوب غلہ پیدا ہو گا۔ مگر اگلے سات سال سخت قحط پڑے گا۔ اس لئے اگر خوش حالی کے سات سالوں کا غلہ گداموں میں محفوظ کر لیا جائے تو آنے والی قحط سالی کا مقابلہ کیا جا سکے گا۔
اپنے خواب کی معقول تعبیر سن کر بادشاہ چونک اٹھا۔ وہ آپ کے علم اور دانائی سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے نہ صرف آپ کی فوری رہائی کا حکم دے دیا بلکہ آپ کو امور زراعت اور شاہی خزانے کا وزیر بھی مقرر کر دیا۔ آپ نے اپنے فرائض اس قدر حیرت انگیز صلاحیت سے انجام دیئے کہ سب لوگ دنگ رہ گئے۔
قحط سالی کے دوران آپ کے سوتیلے بھائی بھی غلہ لینے کنعان سے مصر پہنچے۔ وہ آپ کو نہ پہچان سکے مگر آپ نے انہیں پہچان لیا۔ پھر آپ نے بڑے ڈرامائی انداز میں انہیں اصل حقیقت سے آگاہ کر دیا۔ وہ سب اپنے کئے پر بہت نادم ہوئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں معاف کر دیا۔ اسی دوران چند ایک اور دلچسپ ڈرامائی واقعات بھی رونما ہوئے۔ آپ کے یہ سوتیلے بھائی غلہ لینے کے لئے دوسری بار بھی مصر آئے۔ پھر جب وہ واپس جانے لگے تو آپ نے ان کے ہاتھ اپنے بوڑھے باپ کو پیغام بھجوایا کہ وہ سب لوگ مصر آکر ان کے ساتھ رہیں۔ آپ کے خاندان نے آپ کی دعوت قبول کر لی اور وہ سب لوگ ہنسی خوشی اکٹھے مل کر مصر میں رہنے لگے۔