تقریباً دو ہزار سال قبل ازمسیح کی بات ہے کہ بحیرہ مردار کے جنوب اور اردن کے مشرق میں شہر سدوم آباد تھا۔ اس شہر میں عجیب و غریب بد معاشوں کی ایک ایسی قوم آباد تھی جو مکاری، بداخلاقی اور بے حیائی میں نام پیدا کر چکی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام اس سیاہ کار قوم کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ نے ان لوگوں کی اصلاح کے لئے بڑے جتن کئے مگر آپ کی تمام کوشیں نا کام ہوئیں۔
سدوم میں جب بھی باہر سے کوئی تاجر مال بیچنے آتا سدومی ٹھگ اسے فوراً لوٹ لیتے۔ سدومی ضابطہ عدل و انصاف سے بھی بالکل عاری تھے۔ ایک دفعہ ایک نیک آدمی الیعرض حضرت لوط علیہ السلام کی خیریت دریافت کرنے کے لئے سدوم آیا۔ وہ ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک گنوار نوجوان نے اسے بلاوجہ پتھر مار کر زخمی کر دیا۔ اور معافی مانگنے کی بجائے الٹا الیعرض کا گریبان پکڑ کر بولا میرے پتھر سے تمہارا سر سرخ ہو گیا ہے۔ تمہیں اس کا کچھ معاوضہ مجھے ادا کرنا ہو گا۔ اتنا کہا اور وہ گنوار العرض کو گھسیٹتا ہوا عدالت میں لے آیا۔ قاضی نے بھی اس جاہل گنوار ہی کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ قاضی کے اس عجیب و غریب فیصلے پر الیعرض طیش کھا گیا۔ اس نے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور پورے زور سے قاضی کے سر پر دے مارا اور بولا جناب عالی! میرے پتھر سے آپ کا سر سرخ ہو گیا ہے۔ جس کا کچھ معاوضہ آپ کو مجھے ادا کرنا ہو گا۔ مہربانی فرما کر یہ رقم اس جاہل سدومی کو ادا کر دیں تاکہ ان عجیب و غریب معاوضوں کا حساب کتاب برابر ہو جائے ۔ اتنا کہ کر الیعرض اس انوکھی عدالت سے بھاگ کھڑا ہوا۔
ان سدومی بد معاشوں کے مشغلے مار دھاڑ، لوٹ مار اور دھوکہ بازی تک ہی محدود نہ تھے۔ وہ سخت بد اخلاق اور بے حیا بھی تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں سدھارنے کی بہتیری کوشش کی مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔ ان کی بد کاریاں بڑھتی ہی چلی گئیں، حتی کہ ایک روز انہوں نے آپ کو شہر بدر کرنے کی سازش بھی تیار کر لی ۔ جب اصلاح کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے سدومی بد معاشوں کو تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ اس فیصلے کی اطلاع کے لئے تین خوش شکل فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کی طرف بھیجے گئے۔ فرشتوں نے آپ کو سدوم کی بربادی کے بارے میں خدا کے فیصلہ سے آگاہ کر دیا۔
ادھر شہر میں یہ خبر گرم ہو گئی کہ تین حسین و جمیل نوجوان لوط علیہ السلام کے ہاں مہمان ٹھہرے ہوئے یں۔ بس پھر کیا تھا۔ سدومی بد معاشوں کے ہجوم کے جھوم حضرت لوط علیہ السلام ان کے کان کے باہر جمع ہو گئے۔ ہجوم مطالبہ کر رہے تھے تینوں خوبصورت نوجوان فوراً ان کے حوالے کر دیئے جائیں۔ جب حضرت لوط علیہ السلام کے سمجھانے بجھانے پر بھی وہ بد معاش باز نہ آئے تو فرشتوں نے آپ کو اشارہ کیا کہ اب آپ چپکے سے مکان کے پچھلے دروازے سے باہر چلے جائیں اور پھر اپنے نیک ساتھیوں سمیت شہر چھوڑ کر کہیں دور جانکلیں۔ آپ نے ایسا ہی کیا۔ مگر آپ کی کافر بیوی، جو سرومیوں سے ملی ہوئی تھی، مکان کے اندر ہی ٹھری رہی۔ جونہی حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے ساتھی سدوم سے باہر نکلے شہر کو ایک خوفناک زلزلے نے آلیا۔ ارد گرد کے آتش فشاں پہاڑ کھٹنے گے۔ آسمان سے پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ ہر طرف آگ اور تباہی کا بھیانک منظر تھا۔ اور آنکھ جھپکتے ہی سارا شہر موت اور بربادی کی آغوش میں سو گیا۔