الفاظ میں پوشیدہ جہان

حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی بھائیوں کے حسد، اللہ کی قدرت اور صبر کا درس دیتا ہے۔ اسلامی کہانیوں میں یہ وکیہ ایمان، توکل، اور اللہ کے بعد انسانوں کا حصّہ ہے۔

حسد کرنے والے بھائی اور حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی

قرآن میں جتنے انبیاء کا تذکرہ ہوا ہے، ان میں سب سے تفصیلی تذکرہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے۔ آپ کی کہانی ہمیں انسانی کمزوریوں اور قوتوں کے بارے میں بتاتی ہے: حسد، نفرت، لالچ اور ہوس جو کہ کسی کو تباہ کر سکتے ہیں، اور صبر، رحم و کرم اور کردار کی قوت جو کہ ایک معمولی انسان کو غیر معمولی بنا سکتے ہیں۔ یہاں ہم اس دلچسپ کہانی کا صرف پہلا حصہ بیان کریں گے۔

حضرت یوسف علیہ السلام نہایت پیارے بچے اور اپنے والد کی آنکھ کا تارہ تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن اپنی پھوپھی کے پاس گزارا جو ان سے بے حد پیار کرتی تھیں۔ جب آپ لڑکپن کو پہنچے تو آپ کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام آپ کو اپنے گھر واپس لے آئے۔ آپ کے گیارہ بھائی اور تھے۔ چونکہ انہوں نے اتنا وقت اپنے والد سے دور گزارا تھا، اور چونکہ وہ دنیا کے حسین ترین بچے تھے، فطری بات ہے کہ وہ اپنے والد کے پیارے بلکہ سب سے محبوب بن گئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام انہیں ان کے بہن بھائیوں سے کہیں زیادہ توجہ سے نوازتے۔ اس کی وجہ سے ان کے بھائی ان سے حسد کرنے لگے۔

ایک رات حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا جس میں انہوں نے دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند اور سورج انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کو اس خواب کے بارے میں بتایا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام چونکہ خود بھی نہیں تھے، اس لئے فورا جان گئے کہ اس خواب کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے سارے بھائیوں بلکہ اپنے والد سے بھی زیادہ ممتاز اور سر بر آوردہ ہوں گے۔ گیارہ ستاروں سے مراد ان کے گیارہ بھائی تھے اور چاند سورج سے مراد ان کے والدین تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام جانتے تھے کہ اگر ان کے دوسرے بیٹوں کو اس بات کا پتہ چل گیا تو ان کے حسد اور جلن کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا، اور کچھ خبر نہیں کہ وہ کیا کر بیٹھیں۔ اس لئے انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ہدایت کی کہ وہ کسی کو اپنے خواب کے بارے میں نہ بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے بھائیوں کو اس کے بارے میں پتہ چل گیا تو شیطان اپنی پوری کوشش کرے گا کہ انہیں حضرت یوسف علیہ السلام کو نقصان پہنچانے پر آمادہ کرلے۔

لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے بیٹوں نے پہلے ہی حضرت یوسف علیہ السلام کے خلاف ایک سازش بنانا شروع کر دی ہے۔ سوائے بن یامین کے باقی دسیوں بھائی حضرت یوسف علیہ السلام سے بے حد حسد کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے کہ ہم دس مل کر ایک طاقتور جماعت بنتے ہیں، اس کے باوجود ہمارے والد یوسف علیہ اسلام کو زیادہ پیار کرتےہیں۔ یقینا وہ غلطی پر ہیں اور ایسا کام کرنا چاہئے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو جائے۔

بن یامین اس گروہ کا حصہ نہ تھے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کے سب سے زیادہ قریب تھے کیونکہ ان دونوں کی والدہ ایک ہی تھیں۔ دوسرے بھائی دوسری ماؤں سے پیدا ہوئے تھے۔ صرف حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی نفرت نے انہیں ایک اکائی بنا رکھا تھا۔

پہلے انہوں نے سوچا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے لیکن یہودا، جو ان میں سب سے بڑا اور عقلمند تھا، بولا۔ اسے قتل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں صرف اس سے نجات حاصل کرنا ہے۔ اسے کسی ایسے کنویں میں پھینک دیتے ہیں جو عام گزرگاہ پر واقع ہو۔ وہاں سے گزرتا ہوا کوئی قافلہ اسے نکال لے گا اور اپنے ساتھ لے جائے گا۔ وہ کسی دور دراز سرزمین میں جا پہنچے گا اور ہماری نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔ وہ چلا جائے گا تو ہمارے والد پھر سے ہمیں پیار کرنا شروع کر دیں گے۔

سب بھائی اس پر راضی ہو گئے۔ اگلے روز وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس آئے اور ان سے اجازت طلب کی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ کھیلنے کودنے کے لئے لے جائیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام پہلے آمادہ نہ ہوئے۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کی نگاہوں سے دور لے جایا گیا تو کوئی چیز یا کوئی شخص انہیں نقصان پہنچا دے گا۔ ان کے بیٹوں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کا پورا خیال رکھیں گے اور انہیں کوئی ضرر نہ پہنچنے دیں گے۔ بالآخر وہ مان گئے۔

جیسا کہ منصوبہ تھا، بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ لے گئے اور مارنے پیٹنے کے بعد، انہیں ایک کنویں میں پھینک دیا۔ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص لی، اس پر بکری کا خون لگایا اور پھر روتے پیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی خون آلودہ قمیص انہیں کھائی اور کہا کہ ایک بھیڑیا ان کے بھائی کو کھا گیا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا۔ مجیب بات ہے کہ ایک بھیڑ یا میرے بیٹے کو کھا گیا لیکن اس نے تمیں کہیں سے پھاڑی نہیں ۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم مجھے ہی نہیں بتا ر ہے اور تم نے اس کے ساتھ کچھ کر دیا ہے۔ لیکن میں صبر کا راستہ چنوں گا کیونکہ یہی سب سے مناسب ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام اگلے چالیس سال تک اپنے پیارے بیٹے کو نہ دیکھ پائے۔ ان کے دکھ میں وہ اتنا روئے کہ ان کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ دوسری طرف حضرت یوسف علیہ السلام ایک قافلے کے ہاتھ لگے اور مصر پہنچ گئے جہاں انہیں غلام بنا کر بیچ دیا گیا لیکن آگے چل کر وہ بادشاہی کے تخت تک پہنچے۔ یہ کہانی الگ سے بیان کی جائے گی۔

جیسا کہ ہمیں قرآن اور انبیاء کے دیگر قصوں سے پتہ چلتا ہے، لوگ اپنی منصوبہ بندیاں کرتے ہیں اور اللہ اپنی منصوبہ بندی کرتا ہے، اور اس سے بہتر منصوبہ ساز اور کوئی نہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ کے منصوبوں سے محدود شناسائی عطا کی جاتی ہے اور ایسا کوئی نہیں جو اللہ کے منصوبے کے خلاف چلے اور کامیاب ہو جائے۔