یہ واقعہ حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے قریبا ڈھائی سو سال بعد کا ہے۔ میسحیت کو اس وقت خدا کے سچے دین کی حیثیت حاصل تھی اور کرہ ارض پر اس کے ماننے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ لیکن جیسا کہ ہر سچے دین کی خصوصیت ہے، اس کے ماننے والوں میں پہلے پہل نچلے اور غریب طبقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ حکمرانوں تک یہ روشنی بعد میں پہنچتی ہے۔ لٰہذا اس وقت بھی غرباء اور کمزور لوگ اللہ کے دین کی طرف راغب ہو رہے تھے جبکہ ان کے حاکم ابھی تک جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔
یہ حاکم نہ صرف یہ کہ اللہ کے دین کو مانے سے انکاری تھے بلکہ وہ اپنی رعایا کو بھی اس طرف راغب ہونے سے روکتے تھے۔ جو لوگ اللہ کے دین میں داخل ہو جاتے ، وہ اپنے حکمرانوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنے۔ ایسا ہی ایک حکمران روی بادشاہ دقیانوس تھا جو چاہتا تھا کہ لوگ اللہ کے دین سے ہٹ کر دوبارہ بت پرستی شروع کردیں۔ جو لوگ اس کا حکم نہیں مانتے تھے، اذیت ناک موت ان کا مقدر ٹھہرتی تھی۔
دقیانوس کی سلطنت میں افسوس نام کا ایک شہر تھا جو اس دور میں اللہ کے دین کا ایک بڑا مرکز بنتا جارہا تھا۔ جب دقیانوس کو اطلاع ملی کہ یہاں کے لوگ بت پرستی چھوڑ کر اللہ کے دین کا رخ کر رہے ہیں تو ایک روز وہ خود اس شہر میں آ پہنچا اور یہاں کے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی تعلیمات ترک کر دیں اور اپنے پرانے مذہب پر لوٹ آئیں۔
کمزور ایمان والے اس کی دھمکیوں سے گھبرا کر دوبارہ بت پرستی پر واپس آگئے۔ جن لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا انہیں گرفتار کر لیا گیا اور بعد ازاں اذیتیں دے کر ہلاک کر دیا گیا۔ ان گرفتار ہونے والوں میں چند نوجوان بھی تھے جن کا تعلق اعلیٰ خاندانوں سے تھا۔ دقیانوس نے فوری طور پر انہیں ہلاک کرنا مناسب نہ سمجھا اور ان سے کہا کہ وہ اپنے اجداد کے دین پر واپس آجائیں۔ نوجوانوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ دقیانوس نے انہیں سوچنے کے لئے ایک دن کی مہلت دی اور کہا کہ اگر اس مہلت کے بعد بھی وہ اپنے انکار پر اڑے رہے تو ان کے حسب نسب کی پروا کئے بغیر انہیں دردناک انجام سے دو چار کیا جائے گا۔
روایات میں ان نوجوانوں کی تعداد کہیں سات، کہیں پانچ اور کہیں تین بیان کی گئی ہے۔ جب یہ نوجوان دقیانوس کے دربار سے نکلے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب انہیں کیا کرنا چاہئے۔ طویل صلاح مشورے کے بعد یہ طے پایا کہ وہ شہر سے نکل جائیں اور کسی غار میں پناہ لے لیں۔ جب دقیانوس یہاں سے واپس چلا جائے گا تو وہ بھی واپس آجائیں گے۔ یہ سوچ کر وہ شہر سے باہر جانے والے راستے پر چل پڑے۔ راستے میں انہیں ایک صاحب ایمان چرواہا ملا۔ جب اس نے سنا کہ یہ لوگ دقیانوس کے ظلم سے بچنے کے لئے کسی غار میں پناہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ کولیا۔ چرواہے کے ساتھ اس کا وفادار کتا بھی تھا۔ بعض روایات میں اس کا کتے کا نام قطمیر بتایاگیا ہے۔
شہر سے باہر کی پہاڑیوں میں وسیع و عریض غار موجود تھے۔ نوجوانوں نے کتے سمیت ان میں سے ایک غار میں پناہ حاصل کرلی۔ یہاں پہنچ کر دل کو سکون ہوا تو وہ عبادت الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ اسی عالم میں اللہ کا حکم ہوا اور انہیں نیند آگئی۔ سارے نوجوان غار میں اِدھر اُدھر لیٹ کر سو گئے، اور ان کا کتا غار کے دہانے پر یوں دراز ہو گیا کہ اس کا منہ غار کے دہانے کی طرف تھا۔ پہلی نظر میں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ غار کی رکھوالی کر رہا ہو۔
اگلے روز دقیانوس نے پھر دربار لگایا اور نوجوانوں کو طلب کیا۔ پتہ چلا کہ وہ شہر سے غائب ہیں۔ اس پر اس نے نو جوانوں کے گھر والوں کو بلا کر ان کی بابت پوچھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں نہیں جانتے کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ دقیانوس نے انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
اللہ کے حکم سے وہ نوجوان اس غار میں سوئے رہے۔ دن گزرتے گئے۔ سال بھر بعد دقیانوس ایک جنگ میں مارا گیا۔ اللہ کے دین کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا اور لوگ بت پرستی چھوڑ چھوڑ کر اس طرف آرہے تھے۔ پھر ایک زمانہ وہ آیا کہ پورے کا پورا علاقہ بت پرستوں سے پاک ہو گیا۔
غار والے سوئے رہے، اور اسی حالت میں تین سو سال گزر گئے ۔ کسی نے ان کی نیند میں خلل انداز ہونے کی کوشش نہ کی۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا اس غار کی طرف آ بھی نکلتا تھا تو غار کے دہانے پر کتے کو رکھوالی کرتا دیکھ کر اندر داخل ہونے کی کوشش نہ کرتا تھا۔ لوگ انہیں بھول چکے تھے اور دقیانوس کا ظلم و ستم بھی ماضی کی تلخ یادوں کا حصہ بن چکا تھا۔ اب وقت آ گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس معجزے کو دنیا والوں کے سامنے ظاہر کر دیا جائے۔
چنانچہ اللہ کے حکم کے مطابق، ایک روز غار والوں کی آنکھ کھل گئی۔ اٹھنے پر ان کی کیفیت ویسی ہی تھی جیسی کہ رات بھر یا دن بھر سو کر اٹھنے والوں کی ہوتی ہے، اور وہ اپنے دل میں یہی خیال کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک رات سو کر گزار دی ہے۔ اٹھنے کے بعد انہوں نے آپس میں بات چیت کر کے فیصلہ کیا کہ ان میں سے ایک چھپتا چھپاتا شہر میں جائے اور کھانے پینے کا کچھ سامان خرید لائے کیونکہ معلوم نہیں انہیں ابھی اور کتنے روز اس غار میں رہنا پڑے۔ وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ باہر کی دنیا بالکل بدل چکی ہے۔
منصوبے کے مطابق، ان میں سے ایک نوجوان شہر میں آیا تو اس نے دیکھا کہ شہر بالکل بدل چکا ہے۔ اب یہاں کی دیواروں پر حضرت عیسی علیہ السلام کے اقوال اور تعلیمات لکھی نظر آ رہی ہیں۔ وہ بہت حیران ہوا۔ اسے لگا جیسے وہ راستہ بھول کر کسی اور شہر میں آ گیا ہے۔ اس نے پاس سے گزرتے ایک شخص سے شہر کا نام پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ اس کا اپنا شہرہی ہے۔ اس حیرت کے عالم میں وہ کھانا خرید نے ایک سرائے پر پہنچا۔ یہاں جب اس نے سرائے کے مالک کو کھانے کی قیمت کے لئے سکے دیئے تو وہ حیران رہ گیا اور اس نے کہا۔ یہ سکے تو بہت پرانے ہیں، آپ کے پاس کہاں سے آئے؟
اور پھر آہستہ آہستہ ساری بات کھل گئی۔ نوجوان کو شہر کے حاکم کے پاس لے جایا گیا اور وہاں پہنچ کر اس نے اپنے ساتھیوں کی ساری داستان بیان کی۔ حاکم یہ سن کر حیران رہ گیا کہ وہ اللہ کے حکم کے تحت تین سو سال سے اس غار میں اسی حالت میں موجود ہیں اور ان کی ظاہری وضع قطع اور عمر میں ذرہ برابر فرق رونما نہیں ہوا۔ اللہ کے اس معجزے کو دیکھ کر ان لوگوں کے ایمان اور بھی پختہ ہو گئے۔
حاکم اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک جلوس کی شکل میں غار تک گیا اور باقی نو جوانوں کو بھی ساتھ لے آیا۔ شہر والوں نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ اب یہیں رہیں لیکن نو جوانوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اس غار میں رہیں گے جہاں انہوں نے تین سو سال گزارے ہیں۔ لٰہذا وہ پھر سے غار میں چلے گئے اور انہوں نے اپنی بقیہ عمر یہیں بسر کی۔ ان کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کی یاد میں یہاں ایک عبادت گاہ تعمیر کر دی۔
کسی شخص کا تین سو سال تک سوئے رہنا اور بعد ازاں اس حالت میں جا گنا کہ اس کی جسمانی اور ذہنی کیفیت میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی ہو، بظاہر ناممکن بات لگتی ہے لیکن ہم سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب بات اللہ کے معجزوں کی ہو تو ہر ناممکن ممکن ہو سکتا ہے۔ غار والوں کے قصے میں یہی سبق پوشیدہ ہے کہ جب کوئی اللہ کی ذات اور صفات پر کامل ایمان لے آتا ہے، تو اللہ اس کے لئے ناممکن کو بھی ممکن بنا دیتا ہے۔