جیسا کہ ہم جانتے ہیں، خانہ کعبہ اپنی تعمیر کے بعد سے ہی زائرین کے لئے عقیدت کا مرکز رہا ہے۔ ہر سال پوری دنیا سے لاکھوں لوگ یہاں حج ادا کرنے آتے ہیں۔ اس سے دنیا بھر کے شہروں میں مکہ کو ایک خاص مقام حاصل ہو گیا ہے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی ولادتِ مبارک سے پہلے، خانہ کعبہ اللہ کا گھر نہ رہا تھا بلکہ دیوتاؤں کا گھر بن گیا تھا۔ یہ بتوں سے بھرا پڑا تھا۔ عرب اور دوسرے علاقوں کے لوگ ان بتوں کی پوجا کرتے تھے اور ہر سال انہیں نذرانہ عقیدت پیش کرنے جمع ہوتے تھے۔
اس وقت پڑوسی ریاست یمن پر ابر ہہ کی حکومت تھی۔ وہ ایک طاقتور لیکن مغرور و متکبر حکمران تھا۔ ہر سال وہ پورے عرب اور دیگر ممالک کے لوگوں کو مکہ آتے ہوئے دیکھتا۔ یہ زائر نذرانے اور دیگر اسباب بھی لاتے۔ مکہ کے رہنے والے نہ صرف انہیں رہائش، پانی اور خوراک جیسی خدمات فراہم کرتے بلکہ ان کے ساتھ تجارت بھی کرتے۔ اس طرح حج نہ صرف ایک روحانی بلکہ ایک تجارتی اجتماع بھی بن جاتا۔ ابرہہ کو یہ دیکھ کر بے حد حسد ہوا۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ نذرانے اور تحائف لے کر اس کے ملک میں آئیں۔ اس نے سوچا کہ اسے اسی طرح کی جگہ یمن میں بھی بنانی چاہئے۔ اس خیال کے تحت، اس نے اپنے شہر میں ایک عظیم الشان معبد بنوایا اور عرب کے نئے روحانی مرکز کے طور پر اس کی تشہیر شروع کر دی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس کا معبد کعبہ سے بڑا اور بہتر ہے اور اس کا شہر مکہ سے زیادہ خوبصورت اور ترقی یافتہ ہے۔ اس نے تجارت کی خواہش رکھنے والوں کے لئے زیادہ اقتصادی مواقع فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ غرضیکہ اس نے اپنے معبد کو زائرین کی توجہ کا مرکز بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
لیکن لوگ تجارت کے مواقع یا بہتر سہولیات کے لئے کعبہ میں نہیں آتے تھے۔ وہ عمارت کی شان و شوکت یا شہر کی ترقی کو سراہنے کے لئے نہیں آتے تھے۔ وہ یہاں اس لئے آتے تھے کیونکہ یہ خدا کا گھر تھا۔ وہ بے شک اللہ کے راستے سے بھٹک چکے تھے مگر اب بھی کعبہ کی نہایت عزت و تکریم کرتے تھے۔
ابرہہ کے معبد میں کوئی نہ آیا بلکہ لوگ اس کے دعوے سن کر بھڑک گئے۔ قریش سے تعلق رکھنے والا ایک آدمی یمن گیا ، معبد پر گندگی ملی اور بھاگ آیا۔ اس پر ابر ہہ طیش میں آ گیا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ مکہ پر حملہ کرے اور خانہ کعبہ کو تباہ کر دے۔ اس نے ایک وسیع فوج اکٹھی کی اور مکہ کی طرف پیش قدمی کرنے لگا۔ یہ واقعہ اسی سال پیش آیا جس میں بعد ازاں نبی اکرم ﷺ پیدا ہوئے تھے۔
ابرہہ کی فوج کا بڑا حصہ ہاتھیوں پر مشتمل تھا۔ راستے میں کئی عرب قبائل نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر کوئی بھی اس کی فوج اور اس کے ہاتھیوں کی قوت کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔
اس وقت نبی اکرم ﷺ کے دادا حضرت عبد المطلب خانہ کعبہ کے متولی کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ جب آپ نے حملے کے بارے میں سنا تو اپنے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ ٹھہر کر مقابلہ کرنے کے بجائے پہاڑیوں میں پناہ لے لیں۔ ان کا پختہ یقین تھا کہ اللہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرے گا۔ یہی بات انہوں نے ابرہہ سے بھی کہی جب وہ اس سے اپنے ان اونٹوں کی واپسی کے لئے بات چیت کرنے گئے جو ابرہہ کی فوج پکڑ کر لے گئی تھی۔
لوگ شہر سے نکل گئے۔ حضرت عبدالمطلب اپنے چند قریبی ساتھیوں کے ساتھ وہیں رہے۔ ابرہہ کی فوج مکہ کی طرف بڑھی۔ جب ابر ہہ کا ہاتھی مکہ کی سرحد پر پہنچا تو دھپ سے بیٹھ گیا اور ذرہ برابر جنبش کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ مہاوت نے پوری کوشش کی مگر ہاتھی اپنی جگہ سے نہ سر کا۔
اسی وقت ابابیلوں کا ایک جھنڈ نمودار ہوا۔ ان کی چونچوں اور پنجوں میں مسور کی دال کے دانوں کے برابر کنکر دبے ہوئے تھے۔ ابابیلوں نے ابرہہ کی فوج پر ان کنکروں کی برسات کر دی۔ جس کسی کو بھی یہ پتھر لگا وہ اسی وقت یا تھوڑی دیر بعد ہلاک ہو گیا۔ ابرہہ یمن کی طرف بھاگا لیکن اللہ کے بمباروں کے ہاتھوں بری طرح گھائل ہو گیا۔ اپنی سلطنت میں پہنچنے سے پہلے اس کی جان نکل گئی۔
ابرہہ کی موت ایک تنبیہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے سامنے سرکشی دکھاتے ہیں، اذیت ناک زندگی اور ذلت آمیز موت ان کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔ جب اللہ آپ کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لے تو کوئی آپ کو بچا نہیں سکتا۔ چاہے آپ کتنے ہی طاقتور حکمران ہوں اور آپ کی فوج کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔