الفاظ میں پوشیدہ جہان

جانیے انسانی تاریخ کا سب سے پہلا قتل، حبیل اور قابیل کا قصہ جو قرآن میں ابریت کا پائیگام ہے۔ اسلامی کہانیوں سے تلاش کا انتظار۔

انسانی تاریخ کا سب سے پہلا قتل

نسل انسانی کی افزائش کے لیے قدرت نے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ یہ تھا کہ ہر حمل میں حوا کو ایک لڑکا اور ایک لڑکی تولد ہوتی تھی۔ ایک حمل سے پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کی شادی دوسرے عمل سے پیدا ہونے والے جوڑے کے ساتھ کی جاتی تھی۔ حضرت حوا کے اولین حمل سے قابیل اور اقلیما پیدا ہوئے، دوسرے حمل سے ہائیل اور الیوزا کی پیدائش ہوئی۔ خدائی دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام قابیل کی شادی ہابیل کی بہن الیوزا سے اور ہائیل کی شادی قابیل کی بہن اقلیما سے کرنا چاہتے تھے مگر قابیل کو یہ سب منظور نہیں تھا۔ دراصل اس کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی اقلیما ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی سے کہیں خوبصورت تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اقلیما اس کے نکاح میں آئے ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ کسی صورت اقلیما سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھا۔ پندو نصائح سے نا امید ہو کر حضرت آدم علیہ السلام نے دونوں بیٹوں کو اکٹھا کیا اور انہیں لے کر پہاڑوں میں آگئے۔ کوہ منا کی چوٹی کے پس منظر میں سورج کا آتشیں گولا مغرب کے ان دیکھے نشیب میں اتر رہا تھا۔ آسمان پر شفق رنگ بادلوں کے ٹکڑے مشرق میں شام کی پھیلتی ہوئی چادر کو محویت سے دیکھ رہے تھے ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے کوہ منا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بیٹو! سامنے اس چوٹی کو دیکھ رہے ہو ؟ قابیل اور ہابئل نے اثبات میں سر ہلایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا:

کل یہ چوٹی تمہارے تنازعے کا فیصلہ کرے گی۔

وہ کیسے؟ قابیل نے تنک کر پوچھا۔

حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا۔ کل تم دونوں اپنی اپنی قربانیاں اس چوٹی پر رکھو گے۔ خدا کو جس کی قربانی قبول ہوگی وہ اٹھالے گا۔ جس کی قربانی شرف قبولیت پائے گی وہ حق پر ہوگا، اور وہی اقلیما کا حقدار بھی ہوگا۔ کیا تم دونوں کو یہ فیصلہ منظور ہے۔

بائیل نے اثبات میں سر ہلایا۔ قابیل خاموش کھڑا رہا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا: بیٹے، تمہیں یہ فیصلہ منظور ہے؟ اگر منظور ہے تو اقرار کرو۔ آخر قابیل نے بھی اقرار میں سر ہلا دیا۔

اگلے روز دونوں اپنی اپنی قربانیوں کے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کے روبرو حاضر ہو گئے ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے دونوں بیٹوں کو لیا اور کوہ منا کی طرف چل دیے۔ قابیل کسان تھا اور ہائیل چرواہا۔ قابیل نے کچھ سڑا ہوا فالتو غلہ قربانی کی غرض سے لیا تھا جبکہ ہابیل نے ایک تندرست جانور کی قربانی دینا تھی۔ کوہ منا پر پانچ کر حضرت آدم علیہ السلام نے دونوں قربانیاں اپنے دست مبارک سے ایک مخصوص مقام پر رکھ دیں۔ پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ دونوں میں سے جس بھائی کی قربانی خدا کو قبول ہو اس قربانی کو ایک آگ نمودار ہو کر جلا جائے ۔ آدم علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی۔ پہاڑ کے غار سے سرخ رنگ کی آگ برآمد ہوئی، اور متا کی چوٹی کو چھو کر واپس چلی گئی۔ جب تینوں باپ بیٹوں نے چوٹی پر جا کر دیکھا تو ہائیل کی قربانی اپنی جگہ موجود نہ تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی اقلیما اسی کی خدمت کرے گی۔

فیصلے کے مطابق اگلے ہی روز اقلیما اور ہابیل کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیا گیا۔ وہ روز قابیل پر بہت بھاری تھا۔ اقلیما سے ابدی جدائی کے تصور نے اسے نڈھال کر رکھا تھا۔ وہ بغیر کچھ کھائے پیئے پہاڑوں میں جا بیٹھا اور آتش فشاں کی مانند کھولنے لگا۔ جونہی اقلیما کے ساتھ ہابیل کا تصور اس کے ذہن میں آتا اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور وہ پتھروں پر مکے برسانے لگتا۔ کبھی وہ اٹھ کر بے قراری سے چلنے لگتا اور خود کلامی کے انداز میں کہتا ۔ اقلیما میری ہے صرف میری میں کسی قربانی کو نہیں مانتا، میں کسی رشتے کو تسلیم نہیں کرتا۔

چند روز بعد وہ گھر آیا تو اسے معلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام ہابیل کے فرض سے سبکدوش ہونے کے بعد حج کے لیے مکہ جا رہے ہیں۔ یہ خبر قابیل کے لیے ایک انجانی خوشی کا باعث بنی۔ وہ دل ہی دل میں یہ تمنا کرنے لگا کہ حضرت آدم علیہ السلام جلد سے جلد روانہ ہو جا ئیں۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب آدم علیہ السلام اپنے بال بچوں کو الوداع کہہ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ قابیل کے لیے اب میدان صاف تھا۔ ایک روز ہابیل سے اس کا سامنا ہوا تو اس نے اسے سخت برا بھلا کہا۔ یہاں تک کہ اسے قتل کی دھمکی دی۔ ہابیل نیک خو اور بردبار تھا۔ اس نے متحمل لجے میں کہا۔ خدا پر ہیز گاروں کا عمل قبول کرتا ہے اس لیے میری قربانی قبول ہوئی، تو میری کامیابی پر حسد کیوں کرتا ہے؟ پھر کہنے لگا۔ اگر تو نے مجھے ہلاک کرنے کو ہاتھ اٹھایا تو میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ میں اپنے رب سے ڈرتا ہوں۔ باقی تیری جو مرضی میں آئے وہ کر۔ خدا کے ہاں نیت کی دھمکی کام آسکتی ہے اور نہ بے وجہ کا ضہ میں چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ اپنے ہی ذمے لے لے کہ تو اہل دوزخ سے ہو جائے کیوں کہ ظالموں کی بھی سزا ہوتی ہے۔

ہائیل کی ان باتوں سے قابیل کے بغض وعناد میں اضافہ ہوا اور اس نے اسے جان سے مارنے کا پختہ ارادہ کرلیا، اور پھر وہ رات آن پہنچی۔ روئے زمین کا پہلا قاتل تاریکی کے پردے میں اپنے گھر نکلا اور اپنے بھائی قرآن کی سچی کہانیاں کے گھر کی طرف چل دیا۔ اس نے ہائیل کو بکری خانے میں بے خبر سوتا ہوا پایا۔ کوشش کے باوجود اسے اس کی جان لینے کا کوئی طریقہ مجھ میں نہیں آیا۔ آخر شیطان ایک انسان کے بھیس میں سانپ پکڑے اس کے رو برو آیا۔ اس نے سانپ کا سر پھر سے کچل کر قابیل کو قتل کی راہ دکھائی۔ قابیل نے شیطان کی نقل کرتے ہوئے اپنے حق پرست اور نیک فطرت بھائی کا سر پتھر سے کچل ڈالا۔ ارتکاب جرم کے بعد فطری طور پر مجرم کو خوف دامن گیر ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی خوف و اضطراب قابیل پر بھی طاری ہوا۔ اس کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس کا جرم دوسروں کی نگاہ سے پوشیدہ رہے۔ خاص طور پر اسے اپنے باپ کا خیال آیا۔ اس نے سوچا اگر ہائیل کا مردہ جسم ظاہر ہو گیا تو باپ اسے قاتل سمجھے گا۔ اس نے بھائی کی لاش ایک گھڑی کی صورت اپنی کمر پر رکھی اور پہاڑوں میں نکل گیا، کئی دن تک وہ اس گھڑی کے ساتھ مارا مارا پھرا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس بدبودار جسم سے کیسے پیچھا چھڑائے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں جہاں ہابیل کا خون گرا وہ زمین شور ہو گئی۔ گرمی کے سبب لاش پھول گئی اور قابیل کا دماغ بدبو سے پھٹنے لگا۔ آخر وہ نڈھال ہو کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ اس وقت حکم ربی سے دو کوے آئے اور قابیل کے سامنے ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مارڈالا۔ بعد ازاں زندہ بچ رہنے والے نے اپنی چونچی سے زمین میں ایک گڑھا کھودا، اور مردہ ساتھی کا جسم اس میں رکھ کر اوپر مٹی ڈال دی۔ کوے کا یہ عمل دیکھتے ہی قابیل کی عقل میں آگیا کہ وہ بھائی کی لاش کیسے دفن کرے۔ اس نے بڑے تاسف سے کہا۔ افسوس میری حالت پر، کیا میں اس سے بھی گیا گزرا ہوا کہ اس کوے ہی کے برابر ہوتا اور اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا۔

ہائیل کی گمشدگی سے سب پریشان تھے۔ خاص طور پر اس کی منکوحہ اقلیما۔ وہ اسے تلاش کرتے کرتے تھک چکی تھی۔ قابیل جانتا تھا کہ اب اس کا یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ اس نے اپنی بہنوں میں سے ایک کو ساتھ لیا اور راتوں رات یمن کی طرف روانہ ہو گیا۔ حوا کے تمام لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے بہن بھائی تھے مگر نسل انسانی کی افزائش کے لیے ضروری تھا کہ ان کی شادیاں کی جاتیں لہذا اس مخصوص دور میں بھائی بہن کی شادی حکم ربی کے عین مطابق تھی۔

یہ روایت ہے کہ جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو اس قتل کے سبب ہر طرف تاریکی پھیل گئی۔ فضاؤں میں ایک عجیب طرح کی اداسی نے ڈیرے ڈال لیے جب حضرت آدم علیہ السلام مکہ سے واپس آئے تو قابیل وہ نکلا کو غائب اور لواحقین کو سخت پریشان پایا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ان کی مکہ روانگی کے چند روز بعد ہی ہاتل وقاتل دونوں غائب ہو گئے تھے۔ پھر کچھ روز بعد قابیل اکیلا واپس آیا لیکن راتوں رات اپنی بہن کو لے کر واہیں ہم گیا۔ اس وقت سے ہائیل و قابیل کا کچھ پتہ نہیں۔ ان اطلاعات نے حضرت آدم علیہ السلام کو سخت مضطرب کر دیا۔ انہیں نا فرمان قابیل کی تو اتنی فکر نہیں تھی مگر ہابیل کی گمشدگی نے انہیں بے حد طول کیا۔ وہ روز ہابیل کو تلاش کرنے پہاڑوں میں نکل جاتے لیکن شام کو نا کام واپس لوٹتے۔ اپنی مصوم اور بیوہ بیٹی اقلیما کی حالت ان سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ اس نے ہابیل کے غم میں اپنا حال ختہ کر لیا تھا۔

آخر ایک روز صبح کے وقت حضرت آدم علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا ہابئل الغیاث الغیاث یعنی اے پدا، اے پدر پکار رہا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام نیند سے بیدار ہوئے اور زارو قطار رونے لگے۔ اس وقت جبرائیل علیہ آسمانوں سے اترے اور انہوں نے آدم علیہ السلام کو ہابیل پر گزرنے والے حادثے سے باخبر کیا۔ آدم علیہ السلام کا کلیجہ غم سے شق ہو گیا۔ وہ تا دیر روتے رہے پھر فرمانے لگے۔ قابیل سے ہم بیزار ہوئے۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا: اے آدم!اگر یہ زاری مت کر۔ خدا تعالٰی بھی اس سے بہت بیزار ہے۔ تب حضرت جبرائیل علیہ السلام آدم و حوا کو ان کے مقتول بیٹے کی قبر پر لے گئے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا۔ اگر قابیل ہابیل کو مارتا تو خون اس کا یہاں گرتا۔

جبرائیل علیہ السلام نے آدم کو بتایا۔ اس کا لہوز مین نے کھینچ لیا ہے۔

آدم علیہ السلام نے دکھی لہجے میں کہا: لعنت اس زمین پر کہ خون میرے فرزند کا پی گئی۔

تب خدا کی قدرت سے زمین نے ہابیل کا خون اگل دیا۔ آدم وحوا کو یقین ہو گیا کہ ان کا لخت جگر یہیں دفن ہے۔ دونوں نے مل کر وہ زمین کھودی۔ اندر سے ہابیل کی لاش برآمد ہوئی جس کا سر شکستہ اور اعضا خون سے تر بتر تھے۔ دونوں ہابیل کی یہ حالت دیکھ کر بہت روئے۔ پھر لاش کو لکڑی کے ایک تابوت میں بند کیا اور وہاں سے گھر لے آئے۔ روایات کے مطابق ہابیل کی عمر اس وقت تیس برس تھی۔ اس جواناں مرگ کی لاش دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہوئی۔ اقلیما کی امیدوں کے چراغ بجھ گئے۔ کرہ ارض پر اپنے مرحوم شوہر پر رونے والی وہ پہلی عورت تھی۔ آدم وحوا اور اقلیما کے آنسو دیکھ کر آسمان کے فرشتے بھی رو پڑے۔ ہر شے اداس ہوگئی۔ وہ لاکھوں تنازعے جو اس تنازعے کے بعد پیدا ہونے والے تھے اور وہ کروڑوں قتل جو اس قتل کے بعد ہونے والے تھے، سب کا غم اس غم میں شامل تھا۔

ہابیل کی مرگِ ناگہاں کا حضرت آدم علیہ السلام کو بہت دکھ تھا۔ اسی دکھ اور اداسی کی کیفیت میں انہوں نے کھ اشعار بھی کہے۔ یقینا یہ روئے زمین پر کی جانے والی پہلی شاعری تھی وہ شعر کچھ اس طرح تھے۔

شہراور شہروں میں موجود سب کچھ بدل گیا۔

روئے زمین گرد آلود اور بد نما نظر آنے لگا

ہر رنگین اور پر لطف چیز بدل گئی

اور روشن چہروں کی بشاشت ماند پڑ گئی

قابیل نے سفا کی کے ساتھ ہابیل کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اس کی جوانی پر ہزار افسوس۔

میری آنکھوں کو کیا ہوا کہ وہ آنسو نہیں بہاتیں ہے۔

حالانکہ خوش مزاج ہابیل کو قبر نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔

اب میں تاحیات غمزدہ رہوں گا، میری زندگی اب سکون سے خالی ہو چکی۔

قائیل جب فرار ہو کر یمن پہنچا تو ابلیس نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ ہابیل کی قربانی اس لیے قبول ہوئی تھی کہ وہ آتش پرست تھا، لہذا اس نے بھی آتش پرستی شروع کر دی۔ یوں زمین پر آگ کی پوجا کا آغاز ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام قابیل سے بائیل کے خون کا قصاص لینا چاہتے تھے۔ اس غرض سے انہوں نے قابیل کو بہت تلاش کروایا لیکن اس کا سراغ نہیں ملا۔ آدم علیہ السلام کی وفات تک وہ ان کے روو برو نہیں آیا۔ (حضرت آدم علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند ارجمند حضرت شیث کا زمانہ آیا۔ ان کے زمانے میں بھی قابیل روپوش ہی رہا۔)

زندگی کے آخری ایام میں حضرت آدم علیہ السلام پر یہ وحی نازل ہوئی کہ وہ یمن پہنچیں اور وہاں کے آتش پرستوں کو دین حق کی طرف بلائیں۔ حکم ربی کی تعمیل میں حضرت آدم علیہ السلام نے یمن کا رخ کیا۔ قابیل کو جب باپ کی آمد کا پتہ چلا تو خوف کے سبب وہ یمن سے بھی روپوش ہو گیا۔ جب آپ یمن میں فرض رسالت ادا کر رہے تھے تو اولاد قابیل نے بھی آپ سے معجزہ طلب کیا۔ آپ نے سنگ خارا سے پانی جاری کیا۔ دوسرا معجزہ آپ نے یہ دکھایا کہ ایک درخت جو دور تھا آپ کے بلانے پر قریب چلا آیا۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام نے کچھ کنکریاں مٹھی میں دبا ئیں اور ان کنکریوں نے گواہی دی کہ آدم علیہ السلام خدا کے رسول ہیں۔

نبوت آدم کی یہ علی نشانیاں دیکھ کر بھی آپ قابیل کو ایمان نصیب نہ ہوا۔ وہ اپنی آتش پرستی پر ڈٹے رہے۔ اپنا فرض پورا کرنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کا وہاں سے واپس چلے آئے۔ ان کے جانے کے بعد قابئل یمن واپس لوٹ آیا۔ قابیل کے انجام سے متعلق روایت ہے کہ آخر عمر میں اس کا رنگ تاریک رات کی طرح سیاہ ہو گیا تھا۔ بھائی کے خون اور آتش پرستی جیسے گناہوں کی پھٹکار نے اس کے چہرے پر مستقل ڈیرے ڈال لیے تھے۔ اس کی صورت ایسی ہوگئی تھی کہ لوگ دیکھ کر خوف کھاتے تھے اور پتھر مارتے تھے۔ ایک روز وہ کسی کو چہ سے گزر رہا تھا کہ ایک لڑکے نے اسے پتھر مار کر ہلاک کر دیا۔

حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں جو علوم ظاہر ہوئے وہ علم طب، علم الحساب اور علم موسیقی تھے۔ اہم پیشے زراعت اور نور بانی تھے۔ آدم علیہ السلام کی اولاد بعض روایات میں 120 اور بعض میں 40 تھی۔ ان میں نصف لڑکے اور نصف لڑکیاں تھیں۔ اس اولاد میں حضرت شیث علیہ السلام کی پیدائش ہابیل کے قتل کے پانچ سال بعد ہوئی۔ اس کے ایک سو تیس سال بعد ہبوط پیدا ہوئے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے وصال کے وقت ان کی نسل سے موجود زندہ افراد کی تعداد تقریبا چالیس ہزار تھی۔

حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کے تمام بیٹے سوائے ہابیل کے زندہ تھے۔ روایت ہے کہ تمام بیٹوں نے اپنے باپ کے پاس آکر عرض کی کہ ہم کچھ اثاثہ چاہتے ہیں تا کہ اس کے ذریعے روزگار استوار کریں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے دعا کی اور آسمانوں سے جبرائیل کچھ سونا اور چاندی لے کر اترے۔ اولادِ آدم نے ان چیزوں کو نا کافی جانا۔ تب حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا ۔ زمین کا سینہ ایسی دھاتوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان گنت خزانے یہاں دفن ہیں جاؤ اور اپنی اپنی طبع کے مطابق اپنا رزق تلاش کرو۔

جب آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اپنی اولاد سے فرمایا۔ قریب ہے کہ میں دنیا سے کوچ کر جاؤں میرا قائم مقام میرا بیٹا شیث ہو گا۔ تم سب اس کی فرمانبرداری کرنا۔

سب نے اقرار کیا کہ وہ شیث کو اپنا سربراہ تسلیم کریں گے اور اس کی ہدایت پر عمل کریں گے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام نے ایک مطمئن اور گہری سانس لی اور لواحقین سے کہا مجھے تنہا چھوڑ دیا جائے۔ اس کے بعد آپ خدا کی یاد میں مشغول ہو گئے۔ اسی حالت میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تدفین کے لیے جبرائیل بہشت سے کفن لے کر آئے۔ آپ نے ابوالبشر کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس میں آپ کی شریک حیات حوا اور تمام بیٹیاں بھی شریک تھیں۔ تدفین کے بعد دو برس تک آلِ آدم تربت آدم پر موجودری۔ بعد ازاں سب اپنے اپنے علاقوں کو روانہ ہو گئے۔

آدم و حوا کی تدفین کوہ سراندیپ پر ہوئی تھی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں آدم جنت سے نکالے جانے کے بعد اترے تھے۔ ان کے قدم کا نشان اب بھی اس پہاڑ پر موجود ہے۔ آدم علیہ السلام کی توبہ بھی اس مقام پر قبول ہوئی تھی۔ ایک زمانے تک آدم وحوا کی قبریں کوہ سراندیپ پر موجود رہیں۔ یہاں تک کہ طوفان نوح آیا۔ اللہ تعالی کے حکم پر حضرت نوح علیہ السلام نے آدم وحوا کی ہڈیاں کشتی میں رکھ لیں تھیں۔ بعد ازاں حضرت خضر علیہ السلام نے ان باقیات کو بیت المقدس میں دفن کیا۔

مزید پڑھیں

Post navigation