حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً چودہ سو سال پہلے مصر میں ایک طاقتور فرعون حکومت کرتا تھا۔ ان دنوں مصر کے تمام بادشاہوں کو فرعون کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ قدیم مصری زبان میں فرعون کے معنی ہیں شاہی محل۔ مصری بادشاہوں کی ٹھاٹھ باٹھ کا سکہ بٹھانے کیلئے اس لفظ کو اعزازی القاب کے طور پر ان کے اصل ناموں کے ساتھ دہرایا جاتا تھا۔ اس وقت کے فرعون کا اصل نام رامسس دوم تھا۔ اس مغرور فرعون نے خدائی کا دعوئی بھی کر رکھا تھا۔ مصر کے اصل باشندے قبطی کہلاتے تھے۔ قبیلہ بنی اسرائیل کے لوگ بھی مصر میں آباد ہو چکے تھے۔ ظالم فرعون اسرائیلیوں کو تنگ کیا کرتا تھا۔ اس کے شاہی نجومیوں نے پیش گوئی کی ہوئی تھی کہ ایک روز بنی اسرائیل کے گھرانے میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو بڑا ہو کر فرعون کی حکومت کا تختہ الٹ دے گا۔ اس پر ظالم فرعون نے حکم دے رکھا تھا کہ آئندہ بنی اسرائیل کے تمام نوزائیدہ بچے پیدا ہوتے ہی قتل کر دیئے جایا کریں گے۔
اتفاق سے انہی دنوں قبیلہ بنی اسرائیل کے ایک نیک گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام موسیٰ علیہ السلام رکھا گیا۔ ظالم فرعون کے سپاہیوں کے خوف سے بچے کی ماں نے اسے لکڑی کے ایک صندو قیچے میں لٹا کر چپکے سے دریائے نیل کی موجوں پر تیرتا چھوڑ دیا۔ دریائے نیل سے ایک نہر نکالی گئی تھی جو فرعون کے شاہی باغوں کو سیراب کرتی تھی۔ چنانچہ ننھے موسیٰ علیہ السلام کا صندوق تیرتے تیرتے شاہی باغات میں جا پہنچا۔ فرعون کی نیک سیرت ملکہ آسیہ اس وقت باغ میں موجود تھی۔ اسے صندوق میں لیٹا پیارا سا بچہ بہت پسند آیا۔ اس نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ چنانچہ شاہی محل میں ننھے موسیٰ کی پرورش بڑے اہتمام سے شروع کر دی گئی۔
شاہی محل کے آرام دہ ماحول میں پل کر موسیٰ علیہ السلام ایک صحت مند اور خوش شکل نوجوان کی صورت پروان چڑھے۔ ایک رات وہ محل سے نکلے اور شہر میں چپکے چپکے ٹہلنے لگے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اسرائیلی اور ایک قبطی آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام بیچ بچاؤ کے لئے آگے بڑھے تو ان کے ایک اتفاقی مکے سے قبطی ہلاک ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام کے لئے سر عام پھانسی کا اعلان کر دیا گیا۔ گرفتاری سے بچنے کے لئے موسیٰ علیہ السلام چپکے سے محل سے بھاگ کھڑے ہوئے۔
کئی روز کی مسلسل بھاگ دوڑ کے بعد موسیٰ علیہ السلام وادی مدین جاپہنچے۔ یہاں حضرت شعیب علیہ السلام ایک قریبی گاؤں میں رہتے تھے۔ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے اخلاق و اطوار سے متاثر ہو کر انہیں چرواہے کے طور پر اپنے ہاں ملازم رکھ لیا۔ آٹھ سال بعد انہوں نے اپنی حسین و جمیل بیٹی صفورہ کی شادی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کر دی۔ کچھ عرصہ بعد ان کے یہاں ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام اپنے اس مختصر سے خاندان کو لے کر اپنے نیک مشن کی تحمیل کے لئے پھر مصر کی جانب روانہ ہوئے۔ موسم سخت سرد تھا۔ راستے میں کوہ طور پر آگ کی تلاش میں نکلے تو آپ کو خدا کی طرف سے نبوت اور کچھ معجزے عطا ہوئے۔ ایک معجزہ یہ تھا کہ آپ اپنی لاٹھی زمین پر پھینکتے تو وہ خوفناک اژدھا بن جاتی۔ ایک اور معجزہ یہ تھا کہ آپ اپنا ہاتھ کچھ دیر اپنی بغل میں دبائے رکھتے تو اس میں بڑی تیز چمک دمک پیدا ہو جاتی۔ نبوت اور معجزے عطا کرنے کے بعد خدا نے آپ کو فوراً فرعون کے پاس جانے اور اسے راہ راست پر لانے کا حکم دیا۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر پہنچے تو جاہل فرعون آپ کی تبلیغ اور معجزوں سے بالکل متاثر نہ ہوا۔ بلکہ اس نے الٹا اپنے نامور جادو گروں کو جمع کر لیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کھلے مقابلہ کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ جادو گروں کے شعبدوں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزوں میں زبر دست معرکہ ہوا۔ جادو گروں نے کچھ رسیاں زمین پر پھینکیں تو وہ سانپ سے دکھائی دینے لگے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پر دے ماری تو وہ فوراً ایک ہیبت ناک اثر دھا بن کر جادو گروں کے تمام سانپوں کو نگل گیا۔ فرعون کے جادو گروں پر سکتے کا عالم طاری ہو گیا۔ انہوں نے فوراً توبہ کر لی اور مسلمان ہو گئے۔
فرعون بہت سیخ پا ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو ٹھکانے لگانے کے منصوبے بنانے لگا۔ اسی اثنا میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو مصر سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے نکل کھڑے ہوئے تو فرعون اور اس کی فوجیں بھی آپ کے پیچھے لگ گئے۔ جب آپ بحیرہ احمر کے کنارے پہنچے تو آپ نے اپنی لاٹھی پانی کی لہروں پر دے ماری جس سے پانی کی دو بڑی دیوار میں آمنے سامنے کھڑی ہو گئیں اور بیچ میں ایک خشک راستہ سا بن گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت اس راستے سے پار نکل گئی مگر جب فرعون کی فوجوں نے بھی اسی راستے پر قدم رکھا تو ایک زبر دست گڑ گڑاہٹ کے ساتھ پانی کی دو طرفہ دیوار میں آپس میں آملیں اور یوں نافرمان فرعون اور اس کا لشکر غرق ہو گئے۔
مورخوں کا خیال ہے کہ یہ عبرت ناک واقعہ 1440 قبل ازمسیح میں پیش آیا۔ فرعون کی لاش کچھ عرصہ تک سمندری موجوں کے تھپیڑے کھاتی رہی اور پھر ساحل پر آلگی۔ مصر کے فرعونوں کے قدیم رسم ورواج کے مطابق لاش حنوط کر کے ایک عالیشان مقبرے میں رکھ دی گئی۔ 1898ء میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے کھدائیوں کے بعد فرعون رامس دوم کا مقبرہ دریافت کر لیا۔ فرعون کی لاش پر ایک نمکین مادہ کی تہ جمی ہوئی پائی گئی۔ کیمیائی تجزیہ سے ثابت ہوا کہ اس کی موت واقعی سمندر کے نمکین پانی میں غرق ہونے سے واقع ہوئی تھی۔