کوئی 2400 قبل ازمسیح کی بات ہے کہ اردن کے آس پاس ایک بہت گندی اور بت پرست قوم آباد تھی، جسے نمود کہا جاتا تھا۔ نمود کے لوگ حرص و ہوا، عیش و عشرت اور مادی لذتوں میں بالکل کھو چکے تھے۔ ان میں مال و دولت کی فراوانی عام تھی۔ وہ اپنی کرتوتوں کے بڑے نتائج سے بے پرواہ ہو کر ہر قسم کے گناہ اور جرم میں ہر وقت مگن رہتے تھے۔
ان گندے لوگوں کی اصلاح کیلئے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا مگر ان بد معاشوں پر آپ کی نصیحتوں کا کچھ اثر نہ ہوا بلکہ انہوں نے آپ کی مخالفت اور زیادہ تیز کر دی۔ حضرت صالح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت خوبصورت اونٹنی تحفہ میں عطا کی تھی۔ یہ اونٹنی بہت دودھ دیتی تھی اور اردگرد کے علاقے میں آزادی سے گھومتی پھرتی تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام نے ان اوباش لوگوں کو بھی اس کا دودھ پینے کی اجازت دے رکھی تھی، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ایک مفید اور معصوم جانور سے فائدہ اٹھائیں اور اس سے پیار کریں۔ مگر ان بدقماشوں نے ایک دن موقع پا کر بیچاری اونٹنی کو مار ڈالا اور اپنی سفاکی پر نادم ہونے کی بجائے رنگ رلیاں منانے لگے۔
پھر جوں جوں دن گزرتے گئے نمودیوں کی بد اخلاقیاں حد سے بڑھتی چلی گئیں۔ حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں سنبھلنے اور سدھرنے کی بہتیری تلقین کی مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ نمودی گنوار بت پرستی اور عیش و عشرت میں ہمہ تن مگن رہے۔ حتی کہ ایک رات انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کے مکان پر دھاوا بولنے کا خفیہ منصوبہ بھی تیار کر لیا۔ چنانچہ وہ ایک مشتعل ہجوم کی صورت رات کی تاریکی میں حضرت صالح علیہ السلام کی رہائش کی جانب چل نکلے۔
یہ بلوائی ہجوم ابھی راستے میں ہی تھا کہ ایک تباہ کن زلزلے نے اسے آلیا۔ پھر وقفہ وقفہ بعد آسمان سے بجلیاں گرنے لگیں۔ ثمودی خدا کے عذاب کے نرغے میں آگئے تھے۔ ان کی ہیبت ناک چیخوں سے فضا گونجنے لگی۔ ہر طرف شدید افراتفری اور خوف و ہراس کا عالم تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ثمود کی ساری سرکش قوم اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ گئی۔ اس وحشت ناک عذاب سے صرف حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے چند نیک و ناتواں ساتھی ہی بچ سکے۔