دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں بہت تیزی سے ماحول اور قدرتی وسائل پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے دریاؤں میں پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ گزشتہ 30 برسوں کے دوران دریاؤں کے خشک ہونے کی رفتار میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس سے دنیا بھر میں پانی کی فراہمی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران، 50 فیصد سے زائد عالمی دریاؤں میں پانی کی سطح اوسط سے کم رہی ہے۔ خاص طور پر 2023 میں دریاؤں میں پانی کی شدید کمی دیکھنے میں آئی، اور بہت سے بڑے دریاؤں جیسے کہ ایمازون، مسیسیپی، گنگا، اور میکانگ میں پانی کی سطح میں ریکارڈ کمی ریکارڈ کی گئی۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ 2023 میں ایل نینو کی موجودگی نے بھی دریاؤں پر منفی اثرات ڈالے۔ ایل نینو ایک موسمی رجحان ہے جس کے تحت بحرالکاہل کا پانی معمول سے زیادہ گرم ہوجاتا ہے، جس سے دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور دریاؤں میں پانی کی روانی متاثر ہوتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت میں اضافے نے قدرتی موسمیاتی نظامات جیسے ایل نینو اور لانینا کو بھی زیادہ غیر متوقع بنا دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ شدید بارشوں، سیلابوں اور خشک سالی کے بڑھتے ہوئے واقعات دنیا کے آبی ذخائر پر خطرناک اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل سیلسٹ ساؤلو نے کہا کہ "موسمیاتی تبدیلیوں نے پانی کے چکر کو غیر متوقع بنا دیا ہے، اور ہمیں یا تو بہت زیادہ یا بہت کم پانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔"
ایک اندازے کے مطابق، اس وقت دنیا میں تقریباً 3.6 ارب افراد کو ہر سال کم از کم ایک ماہ تک پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ تعداد 2050 تک 5 ارب سے تجاوز کرسکتی ہے۔